• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
اپنے پچھلے کالم میں حکومتوں کے زوال پر لکھی گئی ایک امریکی کتاب (MIT اور Harvard کے پروفیسروں کی تصنیف کردہ) کے بارے میں لکھا تھا اور ان کی بیان کردہ وجوہات حکومتوں کے زوال کی بیان کی تھیں۔ انھوں نے بیان کیا تھا کہ کسی ملک یا حکومت کی ناکامی یا زوال اس کی جغرافیائی پوزیشن، آب و ہوا وغیرہ پر منحصر نہیں ہے بلکہ حکمرانوں اور اداروں کی کارکردگی پر منحصر ہے۔
اس کالم میں اسلامی حکومتوں کے زوال پر لکھی گئی ایک نہایت اعلیٰ کتاب پر تبصرہ آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں۔ اس کتاب کا نام ہے۔
Decline of Muslim States & Societies -
The Root Causes & What can be Done Next.
یہ کتاب کینیڈا میں مقیم پروفیسر ڈاکٹر مصباح اسلام نے تحریر کی ہے۔ پروفیسر مصباح کا تعلق پیارے شہر لاہور سے ہے، یہاں سے ہی الیکٹریکل انجینئرنگ میں B.Sc کی ڈگری حاصل کی اور پھر ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں انگلینڈ سے حاصل کی ہیں۔ کچھ عرصہ پاکستان میں پیشہ ورانہ مصروفیت اور درس و تدریس کے کام کے بعد وہ کینیڈا چلے گئے اور وہ اب وہاں یونیورسٹی آف اوٹاوا میں پروفیسر ہیں۔
ڈاکٹر مصباح اسلام کی کاوش و تحقیق نہایت قابل تحسین ہے۔ انھوں نے تقریباً دو ہزار دستاویزکا مطالعہ کیا ہے اور تاریخی حقائق کا جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب میں پروفیسر ڈاکٹر مصباح اسلام نے تاریخ، مذہب، سیاست اور ابلاغ کو مدِّ نظر رکھ کر یہ کتاب تحریر کی ہے اور آپ نے تاریخی حقائق کی روشنی میں اپنے نتائج اخذ کئے ہیں اور ان کی حمایت میں مضبوط دلائل دیئے ہیں۔
انھوں نے مسلمانوں کے روایتی دلائل اور شکایات بیان کی ہیں کہ جب بھی مسلمانوں سے ان کے زوال کی بات کرو تو فوراً جواب ملتا ہے: ’’ہمارے درمیان روایتی نفاق کی وجہ ہے۔ ہم اس (ذلالت)کے مستحق ہیں کہ ہم نے قرآن اور احادیث کو نظرانداز کردیا ہے اور پھر بھی کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ یہ دراصل بادشاہی نظام کی وجہ سے ہوا ہے جس نے خلفائے راشدین کے بعد جنم لے لیا تھا۔ ہم نے تعلیمی نظام کو نظرانداز کردیا اور یہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ ہم کو چونکہ اللہ تعالیٰ کا سچا پیغام ملا ہے اس لئے دوسرے مذاہب کے پیروکار ہم سے حسد کرتے ہیں اور ہمارے خلاف سازشیں کرتے ہیں جبکہ ہم نے نہایت ہی غیرذمہ دارانہ رویہ اختیار کرکے نہ تو کوئی دفاعی اقدامات اُٹھائے ہیں اور نہ ہی ان خطرات کو محسوس کیاہے۔ ہم بس قسمت کا بہانہ بنا کر ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے ہیں اور تمام جدّوجہد اور محنت کو نظرانداز کردیا ہے۔ ہم آپس میں نفاق اور جھگڑے فساد میں لگے ہوئے ہیں اور خود کو اتنا کمزور کرلیا ہے کہ دشمنوں کے جارحانہ حملوں کا دفاع نہیں کرسکتے۔ ہمارے ممتاز لوگ (حکمراں و سیاست داں) بالکل نا اہل تھے اور نااہل ہیں۔ یہ تمام لعنت ہم پر شدت پسندوں کی وجہ سے ہے اور کسی کی وجہ سے نہیں۔ یہی تمام خرابی کی جڑ ہیں۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر مصباح اسلام نے اب غیرمُسلموں کے مسلمانوں کے بارے میں تاثرات کا ذکر کیا ہے مثلاً مسلمانوں کو نہ ہی علم ہے اور نہ ہی وہ جمہوری اصولوں پر عمل کرنا جانتے ہیں۔ تم مسلمان کسی دوسرے کے زاویہ خیال کو برداشت کرتے ہو اور نہ ہی آزادی اظہار خیال برداشت کرتے ہو۔ تم لوگوں نے آدھی قوم (خواتین) کو اپنی ذاتی املاک اور جائیداد سمجھا ہوا ہے اور ان کو انسانی بنیادی حقوق سے محروم رکھا ہے۔ تم اس قدر اور اتنے عرصہ سے محروم رہے ہو کہ تم اپنا غصّہ ہم پر دہشت گردی اور شدّت پسندی سے اُتار رہے ہو۔ تم لوگ ایک غیرمنظم گروہ ہو اور تم میںمنظم ہونے اور سنجیدگی سے مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ تم لوگوں نے اپنی منزل یعنی کشتی مِس کردی جبکہ یورپ کے عوام ترقی کررہے تھےاور اپنا معاشرہ سدھار رہے تھے اور روشن خیالی کی جانب گامزن تھے۔ اور اس طرح کے خیالات اور تاثرات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
حقیقت یہ ہے اور ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ان لوگوں کے اس موقف میں وزن ہے وہ بہت حد تک صحیح ہیں لیکن یہ فرسودہ، دقیانوسی خیالات یا تاثرات بہت سی چیزوں پر منحصر ہیں اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان خیالات یا تاثرات کو کس طرح اور کس درجہ سے اہمیت دی جائے۔ ڈاکٹر مصباح اسلام نے ان مشکل سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے۔ ڈاکٹر مصباح نے مزید کوشش کی ہے کہ تہذیب (Civilization) اور معاشرہ (Society) میں جو فرق ہے اسکی تشریح کی جائے۔ اُنھوں نے ٹھیک بتلایا ہے کہ کسی قوم کی تہذیب اس کی ذہانت، ثقافتی اور معاشی صلاحیتوں کا نچوڑ ہے جو ایک طویل عرصے میں اس قوم نے حاصل کی ہے اور اس قوم کی اکثریت اس پر عمل پیرا ہے۔ سوسائٹی یا معاشرے کو آپ ایک واضح، اصلی ٹھوس حقیقت سمجھ سکتے ہیں جس میں عوام کی ایک بڑی تعداد حکومت کے زیر اثر حکومتی قوانین کے تحت زندگی گزارتی ہے۔ مسلمان سوسائٹی یہ فرض کرتی ہے کہ عوام کی اکثریت اسلامی قوانین کے تحت زندگی گزارے۔ ایک اسلامی حکومت میں مسلم و غیرمسلم دونوں ہی رہتے ہیں۔
ڈاکٹر مصباح اسلام نے اپنی اس دقیق و اعلیٰ کاوش کا مقصد یہ بیان کیا ہے:
1۔ تاریخی حقائق و واقعات جمع کرنا جو مسلمانوں کی اعلیٰ کارکردگی و کامیابیوں اور انفرادی شخصیات کے کارناموں سے متعلق ہیں۔
2۔ ایک ایسا پیمانہ جو مسلمانوں کی ترقی و زوال کے بارے میں صحیح تصویر پیش کرسکے۔
3۔ ایک ایسا نقشہ تیار کرنا جو ناکامیابیوں کا ایک دوسرے پر انحصار بتا سکے۔
4۔ ایک ایسا طریقہ کار تیار کرنا جو مسلمانوں کی ترقی (عروج) اور زوال کی تشریح (درجہ بندی) کرسکےاور صف بندی (موجودہ اور گزشتہ حکومتوں) کرسکے۔
5۔ ان طریقہ کاروں کی نشاندہی جن کی مدد سے مسلم سوسائٹی میں بہتری آسکے اور اصلاح ہوسکے۔
آپ اندازہ کرسکتے ہیں اس تمام کام میں ڈاکٹر مصباح اسلام نے کس قدر محنت اور تحقیق کی ہے۔ کتاب کو پڑھ کر ہی آپ ان کی محنت کو سراہ سکتے ہیں۔
پروفیسر مصباح اسلام کی یہ اعلیٰ معلوماتی ضخیم کتاب 474 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں 9 ابواب اور 5 ضمیمہ جات شامل ہیں۔
(1) پہلا باب کتاب لکھنے کا مقصد بتاتا ہے۔ تحقیق کا دور اور نتائج کا اندازہ، اس میں ایک مختصر سا تعارف اورمذہب کی بنیادی حیثیت کا ذکر ہے جو عروج و زوال کے پیمانے کو اضافی حیثیت سے بتاتا ہے۔
(2) دوسرے باب میں عروج و زوال کا ذکر ہے اور اس کو ناپنے کا ذریعہ بتاتا ہے۔اس میں وہ تاریخی حقائق بیان کئے گئےہیں جن میں مسلمانوں کی سائنس، آرٹس، حکومتی ڈھانچہ، تمام فتوحات کی تفصیل، بغاوتوں، حکمرانوں کے کردار و اطوار وغیرہ تفصیل سے بیان کئے ہیں۔
(3) تیسرے باب میں زوال کے اسباب تفصیل سے بیان کئے ہیں اور ان کی تشریح کی گئی ہے۔
(4) باب چار سے آٹھ تک ان تمام میدانوں کا ذکر ہے جس میں مسلمان ناکام رہے اور ان کی وجوہات کی تشریح کی ہے۔ باب چار میں انفرادی اور اجتماعی کردار پر تبصرہ، پانچویں باب میں مذہبی اُمور اور ان پر عمل کرنے کا ذکر ہے۔ چھٹے باب میں معلومات کا حصول اور اس کے استعمال کا تذکرہ ہے۔ ساتویں باب میں سیاسی، انتظامیہ اور فوجی معاملات میں کمزوریوں کا ذکر ہے۔ آٹھویں باب میں پیداوار، تجارت اور معاشی معاملات پر تبصرہ ہے۔ نویں باب میں ان تمام باتوں کو یکجا کرکے ان کی تحقیق و تشریح کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ زوال کس طرح ماضی سے حال تک پہنچا ہے۔
ڈاکٹر مصباح اسلام کی یہ اعلیٰ کتاب طالب علموں، تاریخ دانوں، سوشل سائنسدانوں، صحافیوں اور ملکی پالیسی بنانے والوں کے لئے خزینہ معلومات ہے۔ سب اس سے بے حد مستفید ہو سکتے ہیں اور سب کو اس کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ میری نیک دُعائیں ڈاکٹر مصباح اسلام کے لئے ہیں اور دُعا ہے کہ۔
خط ان کا بہت خوب، تحریر بھی اچھی
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
(نوٹ) انتہائی المناک خبر پڑھی کہ ہمارے پرانے نہایت محب وطن اور قابل سرکاری افسر جناب اے جی این قاضی (آفتاب غلام نبی قاضی) صاحب رحلت فرما گئے ہیں۔ اِنا للہ و انا اِلیہ راجعون۔ آپ نے ہمارے پروگرام کو ابتدا میں جن ٹھوس بنیادوں پر رکھنے میں مدد دی تھی اس کا ہماری کامیابی میں بہت بڑا حصّہ ہے۔ میں ایک کالم انشاء اللہ جلد ان کی خدمات پر تحریر کروں گا۔ میرے ان سے نہایت ہی اچھے تعلقات تھے۔



.
تازہ ترین