• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ریاست کی ذمہ داری اور سماج کا فرض ہے کہ ملک و قوم کی عزت،حرمت اور آبرو پر کٹ مرنے والے شہداء کی لازوال قربانیوں کے اعتراف میں ان کے ورثاء اور اہلخانہ کی کفالت کرے تاکہ انہیں ایک قابل فخر اور باوقار زندگی کے مواقع مہیا ہوسکیں۔یہی وجہ ہے کہ افواج پاکستان نے اپنے شہداء کے بیوی بچوں اور والدین کو بہتر زندگی فراہم کرنے کے لئے ایک مربوط اور مضبوط نظام وضع کیا ہے۔جب کوئی جوان یا افسر شہید ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس کے اہلخانہ کو گھر کی سہولت دی جاتی ہے،بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پھر روزمرہ کے اخراجات کے لئے معقول رقم کی متواتر فراہمی کا بندوبست کیا جاتا ہے۔2003ء میں پنجاب حکومت نے شہداء کارگل کے لواحقین کے لئے مختلف اضلاع میں 12000ایکڑ اراضی افواج پاکستان کو الاٹ کی تاکہ جرات و بہادری کی داستانیں رقم کرنے والے جوانوں اور افسروں کے اہلخانہ کو کسی قسم کی معاشی تنگدستی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔2012ء میں سندھ بورڈ آف ریونیو نے صوبائی حکومت کی ہدایت پر کراچی ڈی ایچ اے فیز 9میں 1000ایکڑ زمین افواج پاکستان کو الاٹ کی تاکہ دہشتگردی کیخلاف آپریشن کے دوران جام شہادت نوش کرنے والے 300جوانوں اور افسروں کے ورثاء کو چھت فراہم کی جا سکے۔2013ء میں جب جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف تھے تو انہوں نے ایک نئے رہائشی منصوبے کا آغاز کیا اور اعلان کیا کہ شہید ہونے والے ہر اہلکار کے اہلخانہ کو ڈی ایچ اے لاہورمیں رہائشی فلیٹ دیا جائے گا۔2015ء میں موجودہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ذاتی دلچسپی کے باعث سندھ حکومت نے ضلع شکار پور میں گڑھی یاسین کے علاقہ گولوداڑو میں محکمہ جنگلات کی 9000ایکڑ زرعی زمین افواج پاکستان کے سپرد کر دی تاکہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے 500شہداء کے ورثاء میں تقسیم کی جا سکے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس چمن کو اپنے خون سے سینچنے والوں کے لئے یہ عطیات بھی کم ہیں اور اگر ریاست کے پاس وسائل ہوں تو یقینا ا س سے کہیں بڑھ کر شہداء کے خاندانوں کی کفالت کرنا چاہئے۔مگرافسوسناک بات یہ ہے کہ دیار وطن میںچھوت چھات محض زندوں تک ہی محدود نہیں بلکہ شہداء کے درمیان بھی لکیر کھینچ دی گئی ہے۔بعض شہداء ایسے بھی ہیں جن کی قربانیوں کا ادراک و اعتراف نہیں ہو پاتا۔محکمہ پولیس کو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پہلے دفاعی حصار کی حیثیت حاصل ہے۔وہ پولیس جسے چوروں اور ڈاکوئوں سے نمٹنے کی تربیت دی جاتی ہے اور جس کا کام جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کرنا ہے،آج دہشتگردوں کے خلاف دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہمراہ سینہ تان کر لڑ رہی ہے۔آپریشن راہ راست،آپریشن راہ نجات اور آپریشن ضرب عضب میں اتنے فوجی جوان اور افسر شہید نہیں ہوئے جتنے پولیس اہلکاروں نے جام شہادت نوش کیا۔بلوچستان میں 2008ء سے اب تک تقریباً 600پولیس اہلکار اور افسر شہید ہو چکے ہیں۔خیبر پختونخوا میں ایک عشرے کے دوران پولیس کے شہداء کی تعداد 1200تک پہنچ چکی ہے،پنجاب میں 700اہلکاروں نے فرائض کی انجام دہی کے دوران جان دی ہے جبکہ سندھ پولیس کے ریکارڈ کے مطابق اب تک 2500جوان اور افسر شہادت کے مرتبے پر فائز ہو چکے ہیں۔خیبر پختونخوا میں 4اگست کو یوم شہداء پولیس کے طور پر منانے کا اعلان تو ہوا مگر شہداء کے اہلخانہ آج بھی پیچیدہ دفتری موشگافیوں کے پیش نظر مالی امداد کے منتظر ہیں۔زرعی زمین کی الاٹمنٹ اور دیگر مراعات تو درکنارخیبر سے کراچی تک کوئی ایک رہائشی منصوبہ بھی ایسا نہیں جس میں شہدائے پولیس کے اہلخانہ کو گھر بنا کر دیئے جاتے ہوں۔سینہ چیر تی گولی تو وردی کا فرق ملحوظ خاطر نہیں رکھتی مگر سماج اور حکومت کے ہاں تفاوت بہت واضح ہے۔
میں نے بارہا اس جانب توجہ دلائی کہ خدارا شہداء کے درمیان تو لکیر نہ کھینچیں۔آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا جو اس سے قبل بلوچستان میں انسپکٹر جنرل پولیس کے طور پر تعینات رہے اور انہوں نے کئی بار موت کو قریب سے دیکھا، ان کی نظروں کے سامنے ان کے پولیس افسروں نے جام شہادت نوش کیا۔مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان کی کاوشوں کے نتیجے میں وزیراعلیٰ پنجاب میاںشہباز شریف نے چند روز قبل ایک انقلابی نوعیت کا اعلان کیا ہے جس کے مطابق کانسٹیبل سے اے ایس آئی تک سب کے بنیادی پے اسکیل کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔ کانسٹیبل کا بنیادی پے اسکیل 5سے بڑھا کر 7، ہیڈ کانسٹیبل کا بنیادی پے اسکیل7سے بڑھا کر 9جبکہ اے ایس آئی کا بنیادی پے اسکیل 9سے بڑھا کر 11کیا جا رہا ہے۔ شہداء کے ورثاء کے لئے امدادی پیکج 50لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ روپے کر دیا گیاہے اور دوران سروس شہید ہونے یا وفات پانے والے ملازمین کے ورثاء کے لئے گزارا الائونس اے ٹی ایم کارڈ جاری کیا گیا ہے۔ شہداء کے اہلخانہ کو ہر تین ماہ بعد تقریباً 30ہزار روپے بطور گزارا الائونس ملتا ہے مگر اس کا طریقہ کار بہت مشکل، پیچیدہ اور تکلیف دہ تھا۔ ہر تین ماہ کے بعد سمری تیار ہوتی، متعلقہ پولیس افسر سے منظوری ملنے کے بعد کراس چیک بنتا اور بیوہ کو دفتروں کے چکر لگانا پڑتے مگر اب اے ٹی ایم کارڈ بنا کر دے دیئے گئے ہیں اور گزارا الائونس کی رقم ہر ماہ اکائونٹ میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یقیناً یہ تمام اعلانات اور اقدامات قابل تحسین ہیں۔
ایلیٹ سینٹر بیدیاں روڈکے پولیس دربار سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ محکمہ پولیس کے شہداء کی یادگار بھی تعمیر کی جائے گی۔میرا خیال ہے کہ یادگار بنانے اور اس پر پھول چڑھانے سے کہیں بہتر ہے کہ شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے بچوں کو چھت فراہم کرنے کے لئے ڈی ایچ اے جیسا کوئی شاندار رہائشی منصوبہ بنایا جائے تاکہ پولیس والے بھی اپنے دیگر وردی پوش بھائیوں کی طرح بچوں کے مستقبل کی فکر سے آزاد ہو سکیں۔وردی سیاہ ہو یا خاکی،جان دینے والے محافظوں کے خون کا رنگ تو سرخ ہی ہوتا ہے اور جب کسی کا سہاگ اجڑتا ہے یاکوئی یتیم ہوتا ہے تو اس کی جدائی کا غم ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ڈی ایچ اے اور عسکری کیا اب توشاہینوں نے بھی قصر شاہی کے گنبد پر آشیانے بنانا شروع کر دیئے ہیں،جوڈیشل کالونیاں بن رہی ہیں،صحافیوں کے لئے رہائشی منصوبے وجود میں آ چکے ہیں۔کیا یہ کالی وردی والے محافظ اس قابل نہیں کہ انہیں بھی آشیانہ فراہم کیا جائے یا کم ازکم یہ ضمانت ہی دیدی جائے کہ شہید ہونے کی صورت میں ان کے بچوں کو دربدر کی ٹھوکریں نہیں کھانا پڑیں گی اور ریاست ان کے اہلخانہ کی حفاظت ایسے ہی کرے گی جیسے خاکی وردی والے شہداء کو سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں؟


.
تازہ ترین