• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیانوں نے صحیح کہا ہے کہ کبھی مذاق میں بھی کسی ایسی خواہش کا اظہار نہ کرو جو آپ کے لئے اچھی نہ ہو۔ میں نے گزشتہ ہفتے لکھا کہ بہت عرصے سے بخار کے لئے ترس رہا ہوں، ایسا بخار جس سے گرمیوں میں بھی جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے۔ گرمیاں گزرنے کو ہیں مگر ابھی تک اس بخار کے انتظار میں ہوں جس کے فوائد میں سرفہرست یہ ہے کہ آپ کو سخت سردی لگتی ہے اور گرمیوں میں لحاف اوڑھنا پڑ جاتا ہے۔ لوڈشیڈنگ کے دور میں ایسا بخار ایک نعمت سے کم نہیں ، سو سیانوں کی بات درست نکلی، تین روز پیشتر مجھے اس موذی بخار نے آ لیا جس میں جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے،مگر اس بخار کی خواہش کرتے ہوئے میں بھول گیا تھا کہ جسم پر صرف کپکپی طاری نہیں ہوتی بلکہ پورا جسم پھوڑے کی طرح دکھتا بھی ہے۔ جب یہ درد حد سے بڑھا تو مجھے وہ سردار جی یاد آئے جو کینیڈا سے اپنے مقدس مقام ننکانہ صاحب کی زیارت کے لئے آئے اور یہاں آ کر اتنے جذباتی ہوئے کہ دعا مانگی کہ انہیں اسی مقدس مقام پر موت آجائے۔ یہ کہیں قبولیت ِ دعا کا لمحہ تھا، چنانچہ جب آخری وقت آیا تو آسمان کی طرف دیکھ کر کہا ’’واہ میریا ربّا ، دعائیں تو میں نے اور بھی بہت سی مانگی تھیں۔ ‘‘ سو میں نے بھی جب بخار کی خواہش کی تھی، وہ بھی دراصل قبولیت ِ دعا ہی کا لمحہ تھا۔
لیکن اگر سچی بات پوچھیں تو اس بخار کا ہراول دستہ طبیعت کے اضمحلال اور پورے جسم میں مسلسل درد کی صورت میں دس پندرہ دن پہلے ہی ’’پہنچ ‘‘ چکا تھا، یہ بخار کی علامات تھی، مگر میں تو بخار سمجھتا ہی صرف گرمیوں میں سردی سے کپکپاتے جسم پر رضائی اوڑھنے کے مزے لینے کو، چنانچہ میں نے ان علامات کو لفٹ ہی نہ کرائی۔ اسی حالت میں اسلام آباد سے کراچی گیا جہاں مسلسل دو روز پی ٹی وی کی انتظامیہ، آرٹسٹوں اور رائٹزر سے میٹنگیں کرتا رہا۔ اس کے بعد برادرِ مکرم احمد شاہ صاحب نے کراچی آرٹس کونسل میں میرے اعزاز میں ’’اعترافِ کمالِ فن‘‘ کے عنوان سے ایک ایسی تقریب کا انعقاد کیا کہ فنونِ لطیفہ سے وابستہ ان تمام شعبوں کے نامور لوگوں کو جن سے میں ملنا چاہتا تھا، ایک بڑے ہال میں جمع کر دیا، اس میں خواص ہی نہیں کراچی کے وہ عوام بھی تھے جو کراچی میں امن و امان کی موجودہ صورتحال سے بہت خوش نظر آتے ہیں__ احمد شاہ مسلسل کئی برس سے کراچی آرٹس کونسل کے سربراہ کا انتخاب جیتتے چلے آ رہے ہیں__مجھے یقین ہے کہ اگر کبھی وہ ملکی سیاست میں آئے تو اپنی ہمہ جہت صفات کی بنا پر ایک دن وزارتِ عظمیٰ کی مسند پر بھی جلوہ افروز نظر آئیں گے__دوسری طرف کراچی کے ممتاز ’’بیگ برادران‘‘ میں سے اختیار بیگ نے اپنے ’’محل‘‘ میں ایک پُرتکلف ضیافت کا اہتمام بھی کیا تھا، سو اپنی تمام تر جسمانی اذیت کے باوجود اس محبت بھری محفل میں بھی شرکت کی__ اختیار بیگ کے بھائی اشتیاق بیگ حسب ِ معمول کسی بیرونی دورے پر گئے ہوئے تھے، ان کی طرف سے ’’خیرسگالی پیغام‘‘ اختیار بیگ صاحب نے مجھے پہنچایا__ اپنی دوسری خدمات کے علاوہ یہ دونوں بھائی ’’جنگ‘‘ کے حوالے سے بھی ان سے واقف ہیں جہاں ان کے کالم باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔
جیسا کہ میں نے بتایا کہ اسلام آباد سے کراچی جانے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے میری بخاروالی دعا کو شرفِ قبولیت بخش دیا تھا مگر سردی تو نہیں لگی تھی نا، چنانچہ اس لولے لنگڑے بخار کو زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ سو کراچی میں، میں جہاں فرائضِ منصبی کی ادائیگی میں مصروف رہا اور جہاں احمد شاہ کی کراچی آرٹس کونسل اور اختیار بیگ کی محبت بھری محفلوں میں شرکت بھی کی، وہاں اپنے بہت ہی پیارے دوست، نوجوان شاعر قمر ریاض کے اعزاز میں اسالیب کے زیر اہتمام منعقدہ مشاعرے میں بھی شرکت کی جس کا اہتمام عنبرین حبیب عنبر نے کیا تھا جو بہت عمدہ شاعرہ اور میرے دوست اور اردو کے ممتاز شاعر سحر انصاری کی صاحبزادی ہیں، یہاں اگرچہ سامعین بھی کم تھے اور شاعر بھی__لیکن ’’مقدار‘‘ پر ’’معیار‘‘ نے برتری حاصل کر لی۔ قمر ریاض کے ’’ہمہ اصناف‘‘ دوستوں کا کہنا ہے کہ اس شخص میں ایک نامعلوم سی کشش ہے جو قریب آتے ہی معلوم ہو جاتی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ وہ مسقط سے پاکستان اپنے کاروباری دورے پر آئے، تو جس شہر میں گئے، وہاں ادب دوستوں نے انہیں گھیر لیا۔ اب وہ واپس مسقط جاچکے ہیں اور مجھے یقین ہے وہ وہاں بھی اپنے چاہنے والوں کے جھرمٹ میں ہوں گے۔
باقی رہا میرا بخار، تو وہ جاری و ساری ہے اور اسی کے ’’ہمراہ‘‘ میں ابھی اسلام آباد کے لئے روانہ ہونے والا ہوں۔ سیانوں نے جہاں یہ کہا تھا کہ کبھی کسی بری خواہش کی طلب از راہِ مذاق بھی نہ کرو تو وہاں آج ایک سیانا یہ بھی کہہ رہا ہے کہ کبھی کسی تکلیف یا راحت کو اتنی لفٹ نہ کرائو کہ تم اس کے غلام بن کے رہ جائو۔ چنانچہ دیکھی جائے گی جو ہو گا۔ میں تو اسلام آباد جا رہا ہوں۔


.
تازہ ترین