• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برہان وانی کے لہو نے تحریک آزادی جموں وکشمیر کو ایک نئی زندگی بخش دی ہے جس کے نتیجے میںتحریک آزادی کشمیراب فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو چکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ امریکی اور برطانوی جرائد کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم کی خبریںنمایاں طور پر شائع کر رہے ہیں۔کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر چین کے سوا باقی تمام بڑی عالمی قوتیں اب تک مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اقوام عالم کی ان دوغلی پالیسیوں کی وجہ سے داعش جیسی تنظیموںکو تقویت ملتی ہے۔ انڈونیشیا کا علاقہ ایسٹ تیمور ہو یا شمالی سوڈان میں عیسائی اکثریت کا علاقہ، انھیں آزادی دلانے کےلئے امریکہ اور یورپ حرکت میں آجاتے ہیں جبکہ فلسطین اور کشمیر جیسے مسلم اکثریت کے علاقوں کو آزادی دلانے کے لئے کچھ نہیں کیا جاتا بلکہ انتہاپسندانہ عسکری تنظیموں کا بہانہ بنا کر مسلمانوں کا رشتہ دہشت گردی سے جوڑا جاتا ہے۔ تاہم اب اقوام عالم کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ اگر وہ دنیا بھر سے دہشت گردی کا مکمل طور پر خاتمہ چاہتی ہیں تو ان کو مسلمانوں کوانکے جائز حقوق دلانے کے لئے بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔یہی نہیں بلکہ امن پسند مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے لئے بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔بھارت جس طرح نہتے کشمیریوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کر رہا ہے، معصوم بچوں اور خواتین کو بھی بھارتی فوجی تشددکا نشانہ بنا رہے ہیں، ان وحشیانہ کارروائیوں پر اقوام عالم کو بھارت پر دبائو ڈالنا ہوگا کہ وہ کشمیریوں کو ان کا حق خودارادیت دلائے۔ بھارت کے لئے اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوگی کہ وہ نہ کشمیر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کو جانے کی اجازت دے رہا ہے اور نہ ہی زخموں سے چور کشمیریوں کو طبی امداد مہیا کرنے والوں کو قدم رکھنے دے رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو انتہائی مؤثر انداز میں اٹھایا ہے اور دنیا کو واضح طور پر پیغام دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر ہمارے خطے میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ وزیراعظم نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب سے قبل مختلف ممالک کے سربراہان سے ملاقاتوں کے دوران مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کا بھر پور اظہار کیا۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی اور چین نے کشمیر ایشو پر پاکستان کے موقف کی مکمل حمایت کی۔ کشمیر کا مقدمہ نہایت اہمیت کا حامل ہے جنرل اسمبلی میں وزیراعظم کے کامیاب خطاب کے بعد ملک کے اند ر بھی قومی یکجہتی پیدا کرنے کی زبردست ضرورت ہے۔ کشمیری عوام کی اس فیصلہ کن جدو جہد کا ادراک ہماری تمام سیاسی جماعتوں کو بھی ہونا چاہئے۔ مضبوط اورمتحد پاکستان ہی مقدمہ کشمیر کو اقوام عالم کے سامنے زیادہ بہتر اور موثر انداز میں پیش کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کو چاہئے کہ و ہ وطن واپسی کے فوراً بعد آل پارٹیزکانفرنس بلائیں اور تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے دورہء امریکہ اور وہاں پر عالمی رہنمائوں سے کی جانے والے ملاقاتوں کے حوالے سے اعتماد میں لیں۔ جمہوریت میں پرامن احتجاج سب کا حق ہوتا ہے لیکن احتجاج کرنے والوں پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ ملک کو درپیش مسائل، داخلی و خارجی حالات کو بھی پیش نظر رکھیں۔ بھارت کے جارحانہ عزائم اور کشمیر میں جاری آزادی کی کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہوئی تحریک کے پیش نظر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مکمل ہم آہنگی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیراعظم پاکستان کے خطاب نے آزادی کشمیر کے علمبرداروں کی تحریک کو مزید تیز کر دیا ہے۔2013کے عام انتخابات کے بعد دھاندلی سمیت بہت سے دیگر الزامات لے کر دھرنے، جلسے جلوس اور ریلیاں نکالنے تک،کپتان اپنے ان مشیروں کے حصارمیں نظر آتے ہیں جو اَب انہیں رائے ونڈ مارچ کرنے پر آمادہ کر چکے ہیں۔ لیکن کپتان کو سمجھنا چاہئے کہ پے در پے جلسے جلوس ریلیاں اور مارچ ان کی پارٹی کی سیاسی ساکھ کو بہت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جس کا ایک ثبوت گزشتہ دنوں چیچہ وطنی میں این اے 162کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کی شکست ہے،جہاں پی ٹی آئی کے امید وار رائے مرتضیٰ کو مسلم لیگ ن کے امید وار طفیل جٹ نے شکست سے دوچار کیا۔حالانکہ یہ نشست پی ٹی آئی کے رائے حسن نواز کےاثاثے چھپانے پر نا اہلی کے باعث خالی ہوئی تھی اس ناکامی سے تحریک انصاف کے سربراہ کے سیاسی گلیمر کے خاتمے کا تاثربھی ابھر کر سامنے آیا ہے۔ ایک کھلی حقیقت یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کے احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے سی پیک منصوبے سمیت ملکی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ 30ستمبر کو پی ٹی آئی کی جانب سے رائیونڈ مارچ کے اعلان کے بعد وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے درمیان ہونے والی طویل مشاورت کے بعدفیصلہ کیا گیا ہے کہ مارچ کی راہ میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی۔ بلکہ مارچ کے شرکاء کو حکومت کی جانب سے مکمل سیکورٹی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر سہولتیں بھی مہیا کی جائیں گی۔احتجاج کا حق استعمال کرنے کےباوجود عمران خان کی اولین ترجیح دفاع وطن ہونی چاہئے۔


.
تازہ ترین