• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عرض ہے کہ مغل صاحب نے خود لاشعور ی طور پر تسلیم کرلیا کہ یہ سسٹم نسلی تعصب، نفرت اور تصادم کی طرف لے جاتا ہے۔ اب اس پر خاموشی کیوں ہے؟ یہ غور کا مقام ہے ایم کیو ایم کی بنیاد ہی احساس محرومی پر رکھی گئی۔ اور کوٹہ سسٹم سرفہرست تھا۔ ذرا غور کریں کہ ان کی ناک پر اگر مکھی بھی بیٹھ جاتی تو ہڑتال ہو جاتی مگرکبھی انہوں نے کوٹہ سسٹم کو اسمبلی میں اٹھایا ؟ ہڑتال کی؟ حالانکہ 1973 کے آئین میں یہ 10سال کیلئے تھا، مگر PPP نے طاقت کے زور پر اسے قائم رکھا، یہ اب 2013ء میں ختم ہوگیا ہے، مگر قائم ہے، میرے محترم ا یم کیو ایم چا ہتی ہی نہیں کہ یہ ختم ہو،احساس محرومی اور دیگر مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کرتی ہے ، بقول آپ کے الطاف حسین نے ایم کیو ایم کو متحدہ میں تبدیل کرکے اپنا وعدہ پورا کیا۔ سوال یہ ہے کہ آپ نے ایک عام مہاجر کے درد کو محسوس کیا؟ بقول محترم قائم علی شاہ ہم نے 3لاکھ نوکریاں دیں۔ میرے محترم! سروے کرالیں 10% بھی اردو بولنے والوں کو نہیں ملیں 40% تو بہت دور کی بات ہے۔ تعلیمی حوالے سے عرض ہے کہ بقول محترم سومرو صاحب کے ہم نے 16 یا 14 یونیورسٹیاں قائم کی ہیں۔ ان میں ایک بھی یونیورسٹی اردو بولنے والے علاقوں میں قائم کیں؟ وزیر تعلیم صاحب فرماتے ہیں کہ حیدر آباد میں یونیورسٹی میری لاش پر بنے گی، کیا اس طرح بھائی چارہ پیدا ہوتا ہے؟ کیا یہ صوبہ سندھ کی سالمیت کو کمزور نہیں کریگا؟ یہ تو آپ جیسے دانشور کو کہنا چاہئے تھا، کہ اردو بولنے والے نوجوان پھر کسی الطاف حسین کے نعروں میں نہ آ جائیں، اور دشمن کے ہاتھوں میں نہ چلے جائیں، میں سندھ سے محبت کرتا ہوں، اس کی سا لمیت کیلئے سندھی دانشوروں سے درخواست کرتا ہوں کہ اردو بولنے والوں کو سندھ میں اور سندھ کے وفاقی کوٹے میں ان کو حق دلانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں، اس وقت اردو بولنے والوں کے وہی جذبات ہیں جو کبھی آپ کے تھے کہ سندھ ہمارا اور تمام عہدوں پر قبضہ اردو بولنے والوں کا، بولنے والوں کی اب حالت یہ ہے کہ نوجوان کہتا ہے، کہ دیہی سندھ میں تو ہمارا عمل دخل ہے ہی نہیں، ہمارے شہروں میں بھی ہمارا کوئی عمل دخل نہیں رہا۔ 90% ٹیکس شہری علاقوں کا، جبکہ حصہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ تمام محب وطن افراد سے درخواست کرتا ہوں کہ سندھ کی ترقی کیلئےسب کو ان کا جائز حصہ دیا جائے، اس سے بڑی خدمت سندھ کی نہیں ہوسکتی اور احساس محرومی کو محسوس کرکے اس ظالمانہ سسٹم کے خاتمے کی بات کی جائے۔
(محمد سعید۔کراچی)

.
تازہ ترین