• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دیوان صاحب...انداز بیاں … سردار احمد قادری

ان کا پورا نام سید غلام عباس بخاری تھا لیکن دیوان صاحب کے نام سے مشہور و معروف تھے۔ لمبا قد، متناسب جسم، سرخ و سفید گول چہرہ۔ اکثر چہرے پر شادابی اور مسکراہٹ، ہر کسی سے بلاامتیاز عمر اور معاشرتی حیثیت، محبت اور اپنائیت سے ملنے والے اور اکثر ہر کسی کو اس کے خاندان کے حوالے سے جاننے پہچاننے والے۔ دیوان صاحب جلال پور پیروالا اور اس کے دیہاتی علاقوں کے سدابہار، سیاسی نمائندے اور ممبر صوبائی اسمبلی تھے، جب تک وہ زندہ رہے کوئی انہیں انتخابات میں شکست نہ دے سکا۔ شکست دے ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ معاملہ فہم اور حالات کی نبض پر ہر وقت ہاتھ رکھنے والے نباض تھے۔ جیسے ہی انہیں محسوس ہوتا کہ وہ جس سیاسی پارٹی میں ہیں اس کی مقبولیت بہت کم ہو رہی ہے اور نئی حکومت نئی سیاسی جماعت بنا رہی ہے تو وہ بلاجھجک نئی سیاسی پارٹی میں شامل ہوجاتے تھے۔ انہوں نے کسی سیاسی پارٹی سے عشق نہیں پالا تھا، وہ ہمیشہ کوچۂ اقتدار میں رہنا جانتے تھے بلکہ وہ قیام پاکستان سے پہلے بھی ایوان اقتدار کی غلام گردشتوں کے چکر کاٹ آئے تھے۔ وہ اس دور کو اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا کرتے۔ ایک دن بہت خوشگوار موڈ میں تھے اور یہ وہ دن تھا جب ان کے قریبی دوست سید حامد رضا گیلانی کی کوششوں سے نوجوان سید یوسف رضا گیلانی نے ملتان کی ضلع کونسل کے الیکشن میں سید فخر امام کو شکست دی تھی۔ انتخابات کے نتائج کے بعد ہم چائے کی میز پر بیٹھے تھے تو دیوان صاحب نے سر سکندر حیات کی قیام پاکستان سے قبل کی کابینہ کے وزراء کا ذکر چھیڑ دیا۔ دیوان صاحب اپنے دلنشین انداز میں سرائیکی میں بیان کرتے رہے اور ہم سنتے رہے۔ انہوں نے بتایا کہ سر سکندر حیات نے ایک دفعہ اپنی کابینہ کے وزراء اور قریبی دوستوں کی اپنی رہائش گاہ پر دعوت کی۔ شام تک محفل جمی رہی، مشروبات کا دور چلتا رہا۔ شام ہوگئی تو جب اکثر شرکاء اپنے گھروں کو چلے گئے تو اچانک بادل جھوم کر آئے، گھن گرج ہوئی اور موسلا دھار بارش شروع ہوگئی۔ سر سکندر نے اپنے بقایا مہمانوں سے کہا کہ تیز بارش شروع ہوگئی ہے اور آپ لوگوں نے دور دور جانا ہے تو رات یہیں قیام کریں۔ میں مہمان خانہ کھلوا دیتا ہوں، سب مہمانوں نے اس دعوت کو قبول کیا اور اپنے اپنے کمروں کی راہ لی۔ کابینہ کے ایک سکھ وزیر صاحب کچھ دیر پہلے اچانک غائب ہوگئے۔ لوگوں نے سمجھا یہاں ٹھہرنے کی بجائے گھر چلے گئے۔ چند گھنٹوں بعد ان کی گھوڑا گاڑی یعنی بگھی واپس آتی نظر آئی وہ بارش میں بری طرح بھیگ چکے تھے، ہانپتے کانپتے اندر داخل ہوئے، سب تشویش میں مبتلا تھے کہ بارش میں بھیگنے یہ کہاں چلے گئے تھے۔ سردار صاحب کہنے لگے:’’او جی ! تسی کہیا سی کہ رات ایتھے ٹھہرنا اے تو سردارنی جی نوں جاکے دسناں ضروری سی، میں گھر دس کے نسیا نسیا واپس آگیا جے‘‘۔ (آپ نے کہا تھا کہ رات یہاں ٹھہرنا ہے، سردارنی جی کو جاکے بتانا بھی ضروری تھا اس لئے گھر بتا کے دوڑا دوڑا واپس آگیا ہوں) دیوان غلام عباس بخای جس محفل میں ہوتے وہ اس محفل میں چھا جاتے وہ محفل کی جان ہوتے کوئی ان کے سامنے کیا بولتا وہ خود ہی بلاتھکان بولتے چلے جاتے تھے اور عمدہ بولتے تھے۔ مطالعے کا ذوق بھی تھا اس لئے ان کی گفتگو میں علمی رنگ بھی ہوتا ان کے بڑے بھائی دیوان محمد غوث کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ جلال پور پیروالا کے بخاری خاندان کے پہلے فرد تھے جنہوں نے اہلسنت سے اپنا مسلک بدل کر شیعہ مسلک اختیار کیا تھا ورنہ اس سے پہلے سید سلطان احمد قتال رحمۃ اللہ علیہ کے تمام سجادہ نشین اہلسنت والجماعت سے تھے۔ دیوان غلام عباس بخاری کے بڑے بیٹے سید جعفر حسین بخاری اہل سنت مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو قادری سلسلے سے متعلق و منسلک کہتے ہیں۔ جبکہ دیوان صاحب کے دیگر صاحبزدگان سید اقبال حسین بخاری، سید عاشق حسین بخاری اور سید ناصر عباس بخاری شیعہ اثنا عشری مسلک سے تعلق رکتے ہیں لیکن دیوان صاحب خود وسیع المشرب تھے اور کھلا ظرف رکھتے تھے اور کس جگہ کیا بات کرنی ہے، وہ اس کا فن خوب جانتے تھے۔ ہمارے ہاں تشریف لاتے تو ہمارے خاندان سے اپنے خاندان کے قلبی تعلق کا ذکر چھیڑ دیتے اور بتاتے کہ کس طرح ہمارے جد امجد حضرت حافظ فتح محمد قادری اور ان کے خاندان کے بزرگوں کے آپس میں محبت و عقیدت پر مبنی روابط اور تعلقات تھے۔ وہ ہمارے خاندان کے ہر فرد سے فرداً فرداً اس کے احوال معلوم کرتے اور ذاتی دلچسپیوں کے حوالے سے سوال کرتے۔ میں نے ایک دن اپنے بزرگ دوست ملک غلام نازک لانگ سے سوال کیا کہ وہ کس طرح دیوان صاحب سے 1970کے الیکشن میں ہار گئے تھے جبکہ ان کے جیتنے کے امکانات زیادہ تھے۔ ملک صاحب مرحوم نے مجھے بتایا کہ انہیں پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل تھی اور قومی اسمبلی میں پی پی پی کے رانا تاج احمد نون جیت چکے تھے لیکن انہوں نے (یعنی ملک صاحب نے) چونکہ پیپلز پارٹی کا ٹکٹ نہیں لیا تھا اس لئے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے تھے جبکہ دیوان صاحب مسلم لیگ قیوم کی طرف سے تھے۔ قومی اسمبلی کے الیکشن کے تین دن بعد صوبائی اسمبلی کے الیکشن ہونے تھے دیوان صاحب گھبرائے ہوئے تھے کہ کہیں ہار نہ جائیں لہٰذا انہوں نے خاندانی بزرگوں کے طریقے پر عمامہ شریف سر پر باندھا اور بستی بستی گاؤں گاؤں لوگوں سے ملنے چل پڑے۔ اکثر جگہ پر وہ خوابوں میں بیان کی گئی بشارتوں کے حوالے سے ان کو ووٹ دینے والوں کو قائل کرتے۔ ملک صاحب نے بتایا کہ وہ جاکر لوگوں کو بتاتے رہے کہ دیوان صاحب کے خوابوں پر یقین کرنے کی بجائے حقیقت کی دنیا میں آئو اورکام کرنے والے صحیح نمائندے کو ووٹ دو لیکن ایک دفعہ پھر دیوان صاحب جیت گئے۔ دیوان صاحب کی ایک پہچان یہ بھی تھی کہ وہ اسمبلی میں لب کشائی کرنے سے اجتناب فرماتے تھے۔ اسمبلی کو عزت بخشنے کے لئے تشریف لے جاتے تو دیگر اراکین اسمبلی ان کے قریب آجاتے۔ وہ جس پارٹی میں ہوتے دیگر تمام پارٹیوں کے لوگ ان کا احترام کرتے تھے۔ ان کا قول تھا کہ میں تو حکومت کی پارٹی میں ہوتا ہوں لیکن حکومت ہی اپنی پارٹیاں بدلتی رہتی ہے۔ ان دنوں قیوم لیگ میں تھے، بھٹو صاحب ملتان آئے اور صادق حسین قریشی کی رہائش گاہ ’’وائٹ ہاؤس‘‘ میں آکر ٹھہرے اور دیوان صاحب کو ملاقات کے لئے بلایا اور ان سے کہا کہ یہ مناسب وقت ہے کہ آپ پیپلز پارٹی میں آجائیں۔ دیوان صاحب نے فوراً شمولیت کا اعلان کردیا اور 1977کا الیکشن پی پی پی کی ٹکٹ پر لڑا۔ بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہوئی تو اسی تیزی سے پیپلز پارٹی کو چھوڑا اور فرمایا کہ پتہ نہیں اتنا عرصہ کیسے میں نے اس پارٹی میں گزارا۔ ان کی اگلی منزل جماعت اسلامی تھی، میں نے جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت کے ہمراہ انہیں ان کے جلال پور کے بنگلہ میں رونق افروز دیکھا۔ وہ ان دنوں مولانا مودودی کی فکر اور ان کی تحریکوں کے مداح تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے مجلس شوریٰ بنائی تو جماعت اسلامی کو خدا حافظ کہا اور جنرل صاحب کے ساتھی بن گئے۔ ان کے سیاسی جانشین عاشق بخاری اپنے والد کی روایات کی یاد تازہ کئے رکھتے ہیں۔ انجمن شہریان جلال پور پیروالا بنی تو وہ مجھ سے ناراض ہوگئے۔ وہ سمجھتے تھے کہ یہ تنظیم ان کے خلاف ہے۔ دیوان خورشید احمد بخاری کی اہلیہ کی قل خوانی میں میرا خطاب تھا دیوان صاحب میرے خطاب کے بعد غصے سے کھڑے ہوگئے اور تقریر کرنے لگے۔ وہ سمجھتے تھے کہ مذہبی تقریر میں ان کو نشانہ بنایا گیا حالانکہ وہ ایک خالصتاً مذہبی بیان تھا۔ وہ برطانیہ آئے تو ایک محفل میں میرا ذکر چھیڑا اور بتایا کہ انہوں نے اپنے چاہنے والوں کو روک دیا تھا ورنہ وہ سردار احمد قادری کو نقصان پہنچا سکتے تھے۔ وفات سے پہلے انہوں نے برادر محترم صاحبزادہ فتح محمد قادری کے متعلق وصیت کی کہ وہ ان کی نماز جنازہ پڑھائیں لیکن عین وقت پر ان کے صاحبزدگان ایک شیعہ مجتہد کو لے آئے اور نماز جنازہ پڑھائی۔


.
تازہ ترین