• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سزائے موت کے منتظرذہنی مریض کو اپنی قسمت کے حوالے سے ایپکس کورٹ کے فیصلے کا انتظار

اسلام آباد(فصیح الرحمان خان)سزائے موت کے منتظرذہنی مریض کو اپنی قسمت کے حوالے سے ایپکس کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے۔شعبہ نفسیات، نشتر اسپتال کے سربراہ‘ ڈاکٹر نعیم اللہ لغاری کی میڈیکل رپورٹ کے مطابق امداد علی کو لاعلاج نفسیاتی بیماری لاحق ہے۔تفصیلات کے مطابق،سزائے موت کا منتظر امداد علی نامی قیدی جو کہ گزشتہ 16 سالوں سےسلاخوں کے پیچھے ہے، جب کہ گزشتہ 3 سالوں سے اسے قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے۔اب اسے اعلیٰ سرکاری اسپتال کے ڈاکٹروں نے’’شیزوفرینیا‘‘ کا مریض قرار دے دیا ہے۔ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود اس کے بیوی نے اب تک ہمت نہیں ہاری ہے اور اس کی دماغی بیماری کے باعث اسے موت کی سزا سے بچانےکی مسلسل کوشش کررہی ہے۔ان دونوں کا کوئی بچہ بھی نہیں ہے۔اپنی سزا کے دوران امداد کے گھر والے اس کا پرائیویٹ علاج کروانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔جس کے باعث وہ 16 سال سے جیل میں حسرت و یاس کی صورت بنا ہوا ہے، جب کہ گزشتہ 3 سالوں سے اسے قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔50 سالہ امداد ، جو کہ ذہنی مریض ہے، اپنی آدھی زندگی سزائے موت کے باعث جیل میں گزار چکا ہے۔کئی سالوں سے بیمار ہونے کے باوجود  اس کا باقاعدہ علاج نہیں ہورہا ہے۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس کے جرم کی نوعیت اور اس کی ذہنی حالت کے پیش نظر، اسے پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ ایپکس کورٹ نے کرنا ہے۔سپریم کورٹ  آف پاکستان اس کی بیوی کی جانب سے دائر پٹیشن پر سماعت آج(منگل)کرے گی۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ امداد کو اس کی ذہنی بیماری کے سبب پھانسی نہیں دی جاسکتی ۔اس کی طبی حالت کے پیش نظر اور ذہنی بیماری کے دوران طویل قید نےاس کی حالت مزید بگاڑ دی ہے۔ڈاکٹر طاہر فیروز خان، جو کہ نشتر میڈیکل اسپتال ، ملتان میںکنسلٹنٹ ماہر نفسیات ہیںانہوں نے 19 ستمبر ، 2016 کو جمع کرائی جانے والی اپنی  میڈیکل رپورٹ میں لکھا ہے کہ’’ان کی دماغی حالت کے تفصیلی معائنہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسے شدید دماغی بیماری لاحق ہے اور اس کی حالت میں بہتری کی کوئی علامت سامنے نہیں آئی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ اس کا مرض لاعلاج ہے، ذہنی اعتبار سے وہ صحت مند نہیں ہے۔‘‘ان کا مزید کہنا تھا کہ  امداد علی ولد اسماعیل کو شیزوفرینیا کا مریض قرار دے کرنشتر اسپتال ملتان ، 2012 میں بھیجا گیا تھا، جب کہ وہ جیل میں 2010 سے میرے پاس ہی زیر علاج تھا۔امداد کی ایک بیوی ہے جب کہ کوی بچہ نہیں ہے۔اس کا تعلق ایک انتہائی غریب گھرانے سے ہےاس کی بیوی کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کو وہ اس کا پرائیویٹ علاج کرواسکے، جس کے باعث اس کی ذہنی حالت مزید خراب ہوگئی ہے۔اس پر الزام ہے کہ اس نے اپنے روحانی علم پر تنقید کے باعث ایک مذہبی عالم کو گولی ماردی تھی اور موقع سے فرار ہوگیا تھا۔27 جنوری، 2009 کو ویہاڑی کی سیشن کورٹ نے امداد علی کا بلیک وارنٹ جاری کیا، اسے 10 فروری ، 2009 کو پھانسی ہونی تھی۔اسے تعزیرات پاکستان کی دفعہ302 کے تحت ایک مذہبی رہنما کے قتل میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔اسے سزائے موت بورے والا کے ایڈیشنل سیشن جج نے  دی تھی، جس کی توثیق لاہور ہائی کورٹ نے 7 نومبر، 2008 میں کی تھی۔19 اکتوبر ، 2015 کو سپریم کورٹ نے بھی اس کی اپیل مسترد کردی تھی۔جب کہ صدر پاکستان نے بھی اس کی رحم کی اپیل17 نومبر، 2015 کو مسترد کردی تھی۔26 اگست 2016 کو لاہور ہائی کورٹ نے اس کی درخواست کو مسترد کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ امداد کو اس کی ذہنی حالت کے پیش نظر اور اس کی اصل طبی حالت پر غور کیے بغیرپھانسی نہیں دی جاسکتی، طویل قید کے دوران اس کا علاج نہ ہونے کے سبب، اس کی ذہنی حالت مزید بگڑ چکی ہے۔لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک اپیل دائر کی گئی، جس کے باعث 19 ستمبر کو سپریم کورٹ نے اس کی پھانسی کے عمل کو معطل کردیا۔اس سے قبل، 20 نومبر، 2012 میں سپرنٹنڈنٹ ڈسٹرکٹ جیل، ویہاڑی کی درخواست پر اس کا میڈیکل کروایا گیا تھا، جس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اسے’’پیرانوائڈشیزوفرینیا‘‘ کا مرض لاحق ہے۔ڈاکٹر نعیم اللہ لغاری سربراہ شعبہ نفسیات، نشتر اسپتال  کی رپورٹ کے مطابق،’’ اسے پیرانوائڈ شیزوفرینیا ہے جو کہ ’’دائمی اور لاعلاج نفسیاتی بیماری‘‘ ہے۔اس بیماری کے سبب انسان کی سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔
تازہ ترین