• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج ہی کے دن ٹھیک چھ ہفتوں کے بعد امریکہ میں اگلے چار سال کے لئے دنیا کی سب سے بااثر ریاست اور طاقتور حکومت کے سربراہ کا انتخاب ہونے جارہا ہے۔پوری دنیا کی حکومتیں اور عوام کی بڑی تعداد اس معرکے کو بڑے غور اور توجہ سے دیکھتے ہیں، اس لئے کہ امریکی سربراہ کا طرز عمل، انداز فکراور اس کی حکومت کی پالیسیاں کسی نہ کسی طرح پوری دنیا پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ امریکہ پچاس ریاستوں کی وسیع فیڈریشن ہے جس کا طریقہ انتخاب اور طرز حکومت دوسری جمہوری ریاستوں سے کافی مختلف ہے۔ اس میں ایسا کچھ ضرور ہے جس کی وجہ سے امریکہ کے80فیصد سے زیادہ ووٹر ایک سے زیادہ مرتبہ ووٹ ڈالنے کے باوجود یہ نہیں جانتے کہ بعض اوقات بھاری اکثریت حاصل کرنے والا امیدوار کم ووٹ لینے والے کے مقابلے میں کیوں ہار جاتا ہے؟ امریکہ کی انتخابی تاریخ میں چار(4)مرتبہ یہ واقعہ رونما ہوچکا ہے، پاپولر ووٹ کی بھاری اکثریت حاصل کرنے والے کے مقابلے میں کم ووٹ لینے والا صدر منتخب قرار پایا ہے۔ حالیہ تاریخ میں 2000کے انتخابات میں ’’جارج ڈبلیو بش‘‘ کو مد مقابل’’الگور‘‘ کے مقابلے پانچ لاکھ ووٹ کم ملے تھے پھر بھی’’بش‘‘ صدر بن گئے اور’’الگور‘‘ نے خاموشی سے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ امریکہ میں ووٹر اپنے پسندیدہ صدارتی امیدوار کے نام اور پارٹی کے نشان کو براہ راست ووٹ ڈالتا ہے پھر بھی صدر براہ راست منتخب نہیں ہوتا۔ اس ووٹ کے نتیجے میں ’’الیکٹورل کالج‘‘ یا انتخابی ادارہ وجود میں آتا ہے، جب امریکہ کے سولہ کروڑ ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں تو دراصل وہ(538)الیکٹورل کالج کے ممبران کا چنائو کرتے ہیں۔ انتخابی ادارے کی یہ تعداد ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے ممبران کی تعداد کے برابر ہر ریاست کو اپنے ممبران کانگریس کی تعداد کے برابر الیکٹورل کالج کے ممبران الاٹ ہوتے ہیں۔ صرف ایک ووٹ صدر کے نام اور پارٹی نشان کے پر دیا جاتا ہے، نائب صدر کو الگ ووٹ نہیں ڈالتے وہ صدر کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے یعنی صدر اور نائب صدر ایک پیکیج کا حصہ ہیں۔ پورے امریکہ میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں کی گنتی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی بلکہ ہر ریاست کے ووٹ الگ الگ شمار کئے جاتے ہیں۔ مثلاً نیویارک ریاست کے ووٹ الگ گنے جائیں، جو امیدوار نیویارک میں اکثریت حاصل کرے گا اس ریاست کے سارے الیکٹورل کالج کے ووٹ اسے حاصل ہو جائیں گے۔ نیویارک ریاست کے 27الیکٹورل کالج ہیں ۔ فرض کریں ہیلری کلنٹن صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے ریاست میں جیت جاتی ہیں تو سارے کے سارے 27ووٹ ہیلری کلنٹن یا اس کی پارٹی کے نامزد کردہ ہوں گے، جو ا پنے امیدوار کے حق میں ووٹ کے پابند ہیں۔ اسی طرح پچاس ریاستوں کے ووٹ الگ الگ شمار ہوں گے اور ہر ریاست میں اکثریت حاصل کرنے والے کو الیکٹورل کالج کے سارے ممبران نامزد کرنے کا حق ہوگا۔ امریکہ کی پچاس ریاستوں میں سے زیادہ آبادی والی دس ریاستوں کے ووٹرز کی تعداد تقریباً 52فیصد ہے لیکن ان کے الیکٹورل کالج کے ممبران کی تعداد 52فیصد کے بجائے تقریباً47فیصد بنتی ہے۔ کیلیفورنیا کی آبادی سب سے زیادہ ہے جہاں ووٹر کی تعداد ایک کروڑ ساٹھ لاکھ الیکٹورل کالج کی تعداد53ہے، دوسرے نمبر پر ٹیکساس 36،نیویارک27، فلوریڈا27، پنسلوانیا18، ایلونائے 18، اوہائیو16، مشی گن 14، جارجیا 14، نارتھ کیرولینا 13، نیو جرسی 12، مذکورہ دس ریاستوں کی آبادی باون فیصد سے زیادہ مگر ان کے الیکٹورل کالج کی تعداد 248 باقی چالیس ریاستوں کی آبادی 48فیصد مگر ان کے الیکٹورل کالج 290 ہیں۔ یہ فرق اس لئے واقع ہوتا ہے کہ آبادی کے اعتبار سے پہلی دس ریاستوں کو ایوان نمائندگان کے حساب سے228ممبران الاٹ ہوئے۔ سینٹ میں ہر ریاست کے دو ممبران یوں ان دس ریاستوں کو 248=20+228الیکٹورل ووٹ ملے، کم آبادی والی چالیس ریاستوں کو آبادی کے حساب سے صرف 210ممبران الاٹ ہوئے لیکن سینٹ کے دو ممبران کی وجہ سے ان کی تعداد 290=80+210 ہوگئی۔
صدارتی انتخاب جیتنے کیلئے پاپولر ووٹ کی حیثیت ثانوی ہے، یہ ضروری ہے کہ الیکٹورل کالج کے538میں سے270 ممبران کی حمایت حاصل کی جائے۔ الیکشن میں وہی امیدوار کامیاب ہوگا جس کو کم از کم270کی حمایت حاصل ہوگی۔ پاپولر ووٹ کی اکثریت حاصل کرنے والا بعض اوقات الیکٹورل کالج میں کیوں ہار جاتا ہے؟ اس کی ایک عملی مثال پیش کرنا بے جا نہ ہوگا۔ نیویارک اور فلوریڈا دونوں ریاستوں کے ووٹرز کی تعداد تقریباً ایک، ایک کروڑ ہے اور الیکٹورل کالج بھی ستائیس ، ستائیس سے برابر ہیں۔ فرض کریں ہیلری کلٹن نیویاک میں بہت مقبول ہے اور اس نے 80فیصد ووٹ لے کر نیویارک ریاست کے27ووٹ حاصل کرلئے۔ دوسری طرف’’ٹرمپ‘‘ نے صرف ایک فیصد برتری کے ساتھ فلوریڈا کی ریاست میں کامیابی حاصل کرکے وہاں کے27ممبران جیت لئے اس طرح ہیلری نے نیویارک سے80لاکھ ووٹ حاصل کئے جبکہ ٹرمپ نے فلوریڈا میںاکاون لاکھ، ہیلری کے29لاکھ ووٹ زیادہ ہونے کے باوجود دونوں کے الیکٹورل کالج کی تعداد برابر ہے، اگر الیکٹورل کالج میں دونوں امیدواروں کے ووٹ برابر ہوجائیں تو اس صورت میں صدر کا انتخاب ایوان نمائندگان کی اکثریت سے ہوگا اور نائب صدر کو سینٹ منتخب کرے گی۔ امریکہ کی 226سالہ تاریخ میں صرف ایک مرتبہ یہ نوبت آئی کہ دونوں امیدواروں کے الیکٹورل ووٹ برابر نکلے اور ایوان نمائندگان نے صدر کا انتخاب کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس چنائو میں پاپولر ووٹ کی اکثریت حاصل کرنے والا صدر نہیں بن سکا تھا۔
امریکہ کے حالیہ انتخابی معرکے میں ڈیموکریٹ پارٹی کی ہیلری کلنٹن اور ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ بھی دو امیدوار صدارت کے لئے میدان میں کھڑے ہیں لیکن کسی اخبار نویس، تجزیہ کار، ٹی وی میزبان کی نظر ان کی طرف اٹھتی ہی نہیں۔ ان میں ایک ’’گرین پارٹی‘‘ کے Jill Slienہیں اور دوسرے ’’گیری جانسن‘‘ انہیں بھی بالترتیب 2فیصد اور سات فیصد عوام کی تائید حاصل ہے۔ آج تک کے تبصروں اور تجزیوں کے مطابق ہیلری کلنٹن جسے قومی کنوینشن کے بعد اپنے حریف پر دس فیصد برتری حاصل ہوگئی تھی ،اب اس کی برتری صرف چھ فیصد رہ گئی ہے۔ اب بھی پہلی خاتون امیدوار کی کامیابی کے امکانات 72فیصد ظاہر کئے جا رہے ہیں جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کا امکان زیادہ سے زیادہ 28فیصد تک پہنچ پایا ہے۔
آج سے تین سیاسی مباحثوں کا آغاز ہورہا ہے دوسرا، مباحثہ چار اکتوبر اور آخری مباحثہ19اکتوبر کو منعقد ہوگا ۔یہ مباحثے امریکہ کی رائے عامہ پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ آج تک مختلف ایجنسیوں کے سروے، ماہرین کے تبصرے، ریاستوں کے رجحانات کے مطابق جو تصویر سامنے ابھرتی ہے اس کے مطابق امریکہ میں پہلی خاتون امیدوار کو538الیکٹورل ووٹ میں سے 323کی تائید حاصل نظر آتی ہے۔ ریاست اوہائیو اور فلوریڈا میں کانٹے کا مقابلہ ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کو میدان میں رہنے کے لئے ان دونوں ریاستوں میں کامیاب ہونا ضروری ہے۔ ہیلری کلنٹن ان ریاستوں کے بغیر بھی معرکہ سر کرسکتی ہیں لیکن ٹرمپ ہرگز نہیں۔ گزشتہ انتخاب میں یہ دونوں ریاستیں اوباما جیت گئے تھے۔ اب بھی ہیلری کو فلوریڈا میں معمولی برتری حاصل ہے۔ 1964 سے2012تک جو امیدوار اوہائیو میں جیت گیا وہی امریکہ کا صدر بنا۔


.
تازہ ترین