• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برصغیر ہیومن پوٹینشل کو ساری دنیا مانتی ہے۔ اس کی فزیکل جیوگرافی (طبیعاتی جغرافیہ) کی ورائٹی اور ملٹی کلچرل جن کی کشش بھی بے پناہ ہے، تبھی تو کولمبس ’’انڈیا‘‘ کی تلاش میں نکلا تھا، لیکن اس وقت( 1492) (میری ٹائم سائنس یعنی سمندری سفر کا علم مکمل نہ ہونے کی وجہ سے) دریافت ہوگیا امریکہ، جواس جاری و ساری قدرتی عمل کامعجزہ تھا کہ قدرت نے دنیا کے کل انسانوں پر واضح کرنا تھا کہ اگرسب انسان اسلام کے اٹل فلسفہ ٔ مساوات کی بنیاد پر رنگ و نسل و مذہب اورعقیدے کے تعصبات سے بالاتر ہو کر انسانیت کے مشترکہ مفادات اور فلاح کے لئے مل جل کر جدوجہد کریں (خواہ اکثریت کسی کی ہو) اور سب کو اپنے اپنے مذہبی عقائد اور طرز ِ زندگی کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی ہو تو انسان ترقی کی معراج تک پہنچ سکتا ہے جس کی ایک شکل وہ امریکہ ہے جہاں ابراہم لنکن نے غلامی کا خاتمہ کیا لیکن نسلی تعصب کی بنیاد پراپنے ہی ہم نسل کے ہاتھوں قتل ہو گیا کہ قاتل کا سوال فقط اتنا تھا کہ کیاکالے گورے کے مساوی ہوسکتے ہیں؟ ابراہم کی ’’ہاں‘‘ فقط ہاں نہیں تھی اس نے قانون سازی سے یہ کرکے دکھانے کی ٹھان لی تھی کہ دنیا میں نسلی و مذہبی تعصب اگر ختم نہیں ہوسکتا تو ’’فلسفہ مساوات‘‘ کو غالب ضرور کیا جاسکتا ہے۔ اس کو قانون بنا کر اس کی ادارہ سازی ہوسکتی ہے، قانون کا مکمل اطلاق کرکے انسانی معاشرے میں انسانیت کا غلبہ کیا جاسکتا ہے اور تعصب کے خلاف ’’جائز نفرت‘‘ پیدا کی جاسکتی ہے، اسے نفرت کا صیغہ و علامت ضرور بنایا جاسکتا ہے۔ یہ تو کہانی جدید تاریخ کی ہے۔ تاریخ انسانیت میں ’غلامی‘‘ اسٹیٹس کو کا بہت مضبوط ادارہ رہاہے۔ اس پر ضرب لگانا اور اسے اکھاڑ پھینکنا جان جوکھوں کا کام تھا اور ہے۔ اس کو پہلا چیلنج ظہور ِ اسلام پر ملا جب پہلی مسجد کے قیام کے بعد پہلی اذان، قبائلی نظام کے شکار ’’غلام‘‘ بلال حبشی ؓ سے دلوائی گئی۔ غلامی کے ادارے کی مضبوطی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ظہور ِ اسلام پر بھی غالب قبائلی نظام میں اسےبتدریج ہی ختم کرنے کی حکمت اختیار کی گئی۔ بالاخر خطبہ ٔ حجۃ الوداع پر امت مسلمہ کو نبی آخرالزمان ﷺ کا یہ سنہری پیغام مل گیا کہ ’’کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر اور کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں‘‘ گویا آپؐ نے آنے والی نسل انسانی کے لئے ’’فلسفہ مساوات‘‘ کی راہ دکھا دی اور اپنی امت پر واضح کردیا کہ اس کی پیروی اور شیطانیت پر اس (فلسفہ مساوات) کو غالب کرنا اس کا فریضہ ہے۔
خلفائے راشدینؓ کے دور کے آغاز پراس فلسفے کی پیروی کا سلسلہ بذریعہ گورننس شروع ہوگیا۔ جب پہلے خوشحال خلیفہ حضرت ابوبکرؓ نے خلافت سنبھالتے ہی بزازی (کپڑے کا کاروبار) ترک کرکے اوسط سماجی حیثیت اختیارکرلی۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو عوام الناس میں خلیفہ سے سرعام سوال کرنے کی ہمت بھی پیدا کردی گئی۔ بد ّو کے بھری محفل میں حضرت عمرؓ جیسے دبدبے اور بے پناہ عزت و وقار کے حامل خلیفہ سے ’’تمہارا کرتا کیسے بنا؟‘‘، ’’بیٹے کا ٹکڑا بھی شامل کرکے‘‘ شہرہ آفاق اور تاریخ ساز سوال و جواب کی سچی کھری اور اثرانگیز کہانی کے ذریعے، ’’شفاف حکمرانی کے لئے احتساب کے لازمے‘‘ کا درس ہمیشہ کے لئے آنے والے حکمرانوں اور ان کی انسان دوست حکمرانی کے لئے لکھا گیا۔ایسے میں 30ستمبر کو رائے ونڈ میں حکمرانوں سے سوال اٹھانے کا ملک گیر اجتماع نہ ’’انتشار ‘‘ ہے نہ سی پیک میں رکاوٹ، بلکہ مطلوب گورننس کا ادھورا عمل ہے۔ اگر پرامن اجتماع کی اجازت مل گئی تو جس کی (پاناما کے حوالے سے ) شفافیت کی تکمیل حکمرانوں کا جواب آنے پر ہی ہوگی۔ اسلامی تاریخ میں عوام کے سوال اور حکمران کے جواب کا پابند ہونے کے کلچر کی کمال ادارہ سازی ریاستی نظام میں ہوئی تو آٹھ سو سالہ حکمرانی کی عظیم داستانوں کا حامل ’’مسلم اسپین‘‘ وجود میں آیا، تب اقلیتوں میں اپنے اقلیت ہونے کا احساس ہی ختم ہو گیا۔ ریاستی نظام سے پیدا ہونے والا سماجی ماحول ہی عیسائیوں کے تبدیلی ٔ مذہب کا ذریعہ بن گیا۔ یہودی اپنے مذہب پرقائم رہے، لیکن آج تک اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ ان کی ہزاروں سال کی تاریخ کا سنہری دور مسلم اسپین ہی رہا۔ آج بھی یہودیت کا ہر مسلک ان کے تاریخ دان، سیاستدان اور دانشور اس پر کامل اتفاق رکھتے ہیں۔
احتساب و انصاف ، مساوات اور اظہار ِ رائے کی آزادی کے اجزائے ترکیبی پر مشتمل خلفائے راشدین کی حکمرانی کا گڈگورننس، کلچر، ملوکیت (خاندانی حکمرانی)  کے غلبے کی نفی میں شہدائے کربلا کے اپنا خون بہانے سے پیدا ہوئی حریت، اثرات پوری دنیا پر بہت گہرے ہیں۔ الگ ہے کہ مسلمانان عالم اپنی کامیاب اور عظیم ترین سلطنتوں کے زوال پذیر ہونے پرگمراہ ہوتے گئے، فقط وہ راہ اختیار کرکے جسے ترک کرکے اسلام کا تیز تر فروغ بھی ممکن ہوا اور کامیاب مسلم ادوار کا قیام بھی، تاہم جب اہل مغرب نے پاپائیت کے مقابل اسلامی حکمرانی کلچر کی سچ کی طرح شفاف اور طاقتور اقدار کو جمہوریت اور حکمرانوں کے احتساب کی شکل میں اختیار کیا تو تعصب میں مبتلاا یورپی اقوام کا امریکہ سپر پاور اور آزادی ٔ جمہوریت کا منبع بن گیا۔ (ہمارے آج کے مسلم حکمران بہانہ نہیں بنا سکتے کہ ہم خلفائے راشدینؒ کی تقلید کے قابل نہیں جمہوری مغربی ممالک کے اچھے اقدامات کی پیروی ہوسکتی ہے تو مسلمان حکمران کا مسئلہ پھر ذاتی اغراض کی اسیری ہی نہیں؟) اور مغربی جمہوریتوں کی حامل تمام سابق سامراجی طاقتیں بھی، عوام دوست ریاستوں میں تبدیل ہوکر نوآزاد ریاستوں کے لئے بھی مرکز محویت بن گئیں تب ہی تو برصغیر کی آزادی کے بعد بھی بھارت پاکستان اور پھر بنگلہ دیش نے پارلیمانی جمہوریت کا راستہ اختیار کیا کہ یہ اسلام سے متصادم نہیں تھےاور مغرب اسے اختیار کرچکا تھا۔


.
تازہ ترین