• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پچھلے دو تین مہینوں میں جب بھی لاہور میں جل تھل ہوتا تو میرا دل مچلتا کہ اس تالابی شہر پر کچھ لکھوں مگر چونکہ اس شہر بے مثال سے متعلق مقدمہ لاہور ہائی کورٹ میں تھا لہٰذا میں مچلتے ہوئے دل کو کسی اور طرح رام کرلیتا۔ اب چونکہ لاہور ہائی کورٹ نے اورنج ٹرین منصوبے پر کام روک دیا ہے تو میں عدالت کے فیصلے کی روشنی میں لکھ سکتا ہوں۔ ایک زمانے میں لاہور شہر کی اپنی شان اور دلکشی ہوا کرتی تھی، یہاں پہلوانوں کے اکھاڑے ہوتے تھے، تھڑوں پر محفلیں جمتی تھیں، موسیقی اور شاعری کے ساتھ ساتھ اعضاء کی شاعری بھی ہوتی تھی، اعلیٰ ادب تخلیق ہوتا تھا، ٹھنڈی سڑک کی اپنی رونقیں تھیں، لاہوری کھانوں کے منفرد ذائقے تھے، لاہور میں اپنائیت تھی، حسن تھا، خوشبو تھی، محبت تھی، سندیسے تھے، خواب تھے، خیال تھے سب کچھ ہی خوبصورت تھا، لاہور کو روحانیت نے اپنے حصار میں بھی لے رکھا تھا، علم کا فیض یہیں تقسیم ہوتا تھا کہ؎
اُچے برج لاہور دے
جتھے بلدے چار مشال
ایتھے ای میاں میرؒ دی بستی
ایتھے ای شاہ جمالؒ
اک پاسے دا داتاؒ مالک
اک دا مادھو لالؒ
پھر ترقی کے نام پر یہ شہر بکھرنا شروع ہوگیا، یہاں کے تاریخی سیاسی جلسوں کی رونقیں کم ہونا شروع ہوگئیں، لاہور میں رات گئے ہونے والی محفلوں کا اجڑنا، محبتوں کا کم ہونا، ادیبوں کا لالچ کے دستانے پہن لینا، علم کا کاروبار میں بدلنا، خطابت کا ختم ہونا، لاہور کو پتہ نہیں کس کی نظر کھا گئی، لاہور بکھرا تو ترقی کے نام پر جدید بستیاں بن گئیں، وہ لاہور، لاہور نہ رہا۔ رہی سہی کسر سڑکوں کو بدل کر پوری کردی گئی اور اب تو لوگ لاہور کی نشانیاں مٹانے پر اتر آئے۔ ایسی نشانیاں جن سے صدیوں کی یادیں لپٹی ہوئی ہیں، جن سے زمانے جڑے ہوئے ہیں، روایات جڑی ہوئی ہیں، جب ماضی کی عظیم نشانیاں ختم کرنے کی کوشش شروع ہوئی تو کئی پیارے مخالفت پر اتر آئے، انہوں نے احتجاج کیا، احتجاجوں پر مہارت رکھنے والی ڈاکٹر یاسمین راشد بھی ایسے لوگوں میں شامل تھیں جنہوں نے لاہور کو بچانے کی کوشش کی۔ افسوس لاہور کے لکھاریوں کی اکثریت نے چہروں پر میٹھی مصلحت سجا کر کچھ بھی لکھنے سے گریز کیا۔ ایک شاعر نے ہمت کی اور ’’لاہور کا نوحہ‘‘ لکھ دیا۔ اس روایت پسند شاعر کا نام اسلم گورداسپوری ہے۔ اسلم گورداسپوری اسی شہر لاہور سے پنجاب اسمبلی کا رکن بنا، اس نے اسمبلی میں عوامی مسائل کو شعری زبان میں بیان کیا، اب ایک عرصے بعد انہوں نے خالصتاً عوامی دکھ کو شعری زبان میں بیان کیا ہے، آیئے پڑھیئے، ’’لاہور شہر کا نوحہ‘‘۔ اسلم گورداسپوری کی زبانی۔
سامنے دیکھ کر سب سود و زیاں کیوں چپ ہو
کیا کسی کے بھی نہیں منہ میں زباں کیوں چپ ہو
اس نے اس شہر کے رستے ہی بدل ڈالے ہیں
کوئی منزل ہے نہ منزل کے نشاں کیوں چپ ہو
وہ جو اس شہر کی پہچان ہوا کرتے تھے
مٹتے جاتے ہیں وہ ماضی کے نشاں کیوں چپ ہو
گھر اجڑنے کا بھی احساس نہیں ہے تم کو
کوئی آنسو نہ کوئی آہ و فغاں کیوں چپ ہو
کوئی صدمہ ہی نہیں شہر کی بربادی کا
منہدم دیکھ کے صدیوں کے مکاں کیوں چپ ہو
کیا خبر ان کو کہ آثار قدیمہ کیا ہیں
ان کو روکو انہیں ٹوکو میری جاں کیوں چپ ہو
یہ ترقی نہیں دولت کی ہے سودا بازی
کونسی بات نہیں تم پہ عیاں کیوں چپ ہو
کیا ستم گاروں کی خاطر یہ بنی ہے دنیا
دیکھ کر ظلم کا یہ کوہ گراں کیوں چپ ہو
تم تو اس شہر کی آواز ہوا کرتے تھے
ان دنوں شہر میں رہتے ہو کہاں کیوں چپ ہو
تم تو کہتے ہو بہت شعلہ بیاں تھے اسلمؔ
ان دنوں کس لیے ہو گنگ زباں کیوں چپ ہو
خواتین و حضرات! اسلم گورداسپوری نے پورا سچ بیان کردیا ہے، انہوں نے یہ سچ اس وقت بیان کیا ہے جب لاہور کی ثقافت پر بڑے بڑے کالم لکھنے والے خاموش ہیں، وہ بھی خاموش ہیں جو لاہور کے خود ساختہ عاشق بنے ہوئے تھے، لاہوری قلمکاروں میں سے اسلم گورداسپوری بازی لے گیا ہے، اس نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ؎
زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لئے
عہد کم ظرف کی ہر بات گوارا کرلیں
شاید لاہور کے لوگوں کو یاد ہو کہ جب خلافت ختم ہوئی تھی تو ترکوں نے سعودی عرب کے حکمرانوں کو اپنی چند نشانیاں بتا دی تھیں کہ ان نشانیوں کو ختم کرنے کی کوشش نہ کرنا، ترکوں کی یہ نشانیاں آج بھی ہیں، قومیں اپنی نشانیوں کا تحفظ کرتی ہیں، شہروں نے صدیوں کو بانہوں میں لیا ہوتا ہے، شہر برباد ہو جائیں، بانہیں ٹوٹ جائیں تو صدیاں بکھر جاتی ہیں، بکھرے موتی وقعت کھو دیتے ہیں یہ تو پھر صدیاں ہیں، پتہ نہیں لاہور کے لوگ کیوں نہیں سوچتے کہ ان کا شہر پیرس بنتے بنتے وینس بن گیا ہے۔ لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ مختلف ملکوں میں پرانے شہروں میں پرانی عمارتوں کو کیوں محفوظ رکھا جاتا ہے، آج اگر لاہور کے تاریخی مقامات ختم ہوگئے تو کیا یہ لاہور خوبصورت رہے گا۔ دلی کے اجڑنے پر غالب نے کیا کچھ لکھا تھا، بغداد کے اجڑنے پر کتنے نوحے لکھے گئے تھے۔ دولت آپ کیلئے سڑکیں نئی بنا دے گی، ٹرینیں چلا دے گی مگر دولت کے بس میں یہ نہیں ہے کہ وہ صدیوں کا حسن واپس لا دے۔ شبنم شکیل کا شعر یاد آرہا ہے کہ؎
لاہور پیچھے رہ گیا ہم باوفا مگر
اس شہر بے مثال سے آگے نہیں گئے



.
تازہ ترین