• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ایک واقف کار جن کا تعلق ایک بڑی سیاسی جماعت سے ہے ایک روز ملنےچلے آئے، آتے ہی سوال داغ دیا، کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ سیاست کس چڑیا کا نام ہے اور ریاست کسے کہتے ہیں؟ یہ سن کر بڑی تشویش ہوئی کہ ایک بڑی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے سیاست دان کو یہ سوال کرنے کی آخر کیوں ضرورت پیش آئی۔ میں نے سوال پر سوال داغتے ہوئے دریافت کیا آخر ہوا کیا ہے جو آپ اس قدر برہم اور مایوس نظر آرہے ہیں، ایک لمبی سانس کھینچتے ہوئے بولے میرے دادا نے بھی بر صغیر کی سیاست میں بڑا بھرپور کردار ادا کیا میرے والد بھی ایک بڑے سیاست دان تھے آج جو اسمبلیاں ہیں ان میں کتنے سیاست دان ہیں، یہ سب کے سب بیوپاری ہیں۔ کیا ان میں کوئی ہے جس کو قانون کی الف ب بھی آتی ہو اور چلے ہیں ملک و قوم کے لئے قانون سازی کرنے… نمک کی مانند چند ہی ممبران ہیں جو قانون دان ہیں قانون سے واقف ہیں ورنہ قانون سازی پر لمبے لمبے بھاشن دینے والے کتنا قانون جانتے ہیں۔ سارا کام اور نظام تو بیوروکریسی کرتی ہے یہ تمام ارکان صوبائی یا قومی اسمبلی دراصل اسمبلی میں تجارت کرنے ہی آتے ہیں سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں ملک و قوم سے کسی کو ہمدردی نہیں ہے ہر کوئی الیکشن میں کروڑوں خرچ کر کے آتا ہے میں نے کئی لوگوں سے پوچھا کہ آخر اتنا بڑا سرمایہ خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے سب نے ہی تقریباً ایک سا جواب دیا اگر ہم اپنی تجارت یا کاروبار کے لئے کسی بڑے اور چلتے ہوئے شاپنگ مال یا علاقے میں کوئی دکان خریدیں تو وہ بھی کئی کروڑ میں ملتی ہے پھر اس میں کروڑوں کا ساز و سامان بھرنا پڑتا ہے پھر بھی یہ خدشہ رہتا ہے کہ چلے گی کہ نہیں چلے گی لیکن الیکشن لڑنے میںفائدہ ہی فائدہ ہے اگر جیت گئے تو پوبارہ اور اگر ہار گئے تو بھی نقصان نہیں ہوتا سرکار دربار میں ایک سیاسی کارکن کی حیثیت سے پہچان بن جاتی ہے اور علاقے میں بھی سب واقف ہوجاتے ہیں اور رہی ریاست کی بات تو جناب ہم تو الیکشن کے ذریعے ریاست کو خریدتے ہیں نفع حاصل کرنے کے لئے، یوں سمجھیں کہ دکان نہ خریدی الیکشن کے ذریعے ریاست خریدلی ہر طرح سے فائدہ ہی فائدہ ہے۔ الیکشن میں کیا خرچہ تو ایک ہی جھٹکے میں وصول ہوجاتا ہے شُہرت اور ناموری مفت میں ملتی ہے اوپر سے اگر کبھی کسی معاملے میںووٹنگ کی ضرورت پڑجاتی ہے تو پھر تو موجاں ہی موجاں ہوتی ہیں بڑے بڑے نامور سیاست دان خوشا مد الگ کرتے ہیں اور سرمایہ کاری الگ۔
وہ صاحب ایک لمبی سانس کھینچ کر بولے آپ خود سوچیں جب اہل سیاست کہلائے جانے والے سیاست دان بننے والوں کا یہ حال ہو تو وہ ملک و قوم کا کیا حال کریں گے شہید بھٹو صاحب تک دم غنیمت تھا اس وقت تک واقعی سیاست دان ہوتے تھے لیکن ان کے بعد مارشل لا نے نہ صرف سیاست کا خاتمہ کیا بلکہ سیاسی لوگوں کا بھی خاتمہ ہوگیا اب اگر کوئی سیاست آشنا ہے بھی تو وہ کان دبا کر میری طرح ایک کونے میں چپ چاپ بیٹھا تماشا دیکھ رہا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ہمارے عوام ہیں جو اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ بڑے سے بڑا سانحہ بھی اسے نیند سے نہیں جگاتا ایوب خان کے دور میں چینی پر صرف چار آنے کا اضافہ ہوا تھا تو ایوب خان کی حکومت جاتی رہی تھی آج زیادہ تر ارکان اسمبلی خود شوگر فروش ہیں ہر کسی کی اپنی شوگر مل ہے وہ جب چاہتے ہیں آنے دو آنے کیا پانچ دس روپے بھی بڑھا دیتے ہیں تو عوام سر تسلیم خم کردیتے ہیں کہیں سے کوئی گرم سانس تک نہیں آتی غریب مزید غریب ہو رہا ہے بے روزگاری عام ہوچکی ہے لیکن کسی کو نہ عوام کو نہ خواص کو کوئی فکر ہے سب ٹھیک ہے سب درست چل رہا ہے ۔ اگر کوئی ٹوٹا پھوٹا ممبر اسمبلی کبھی کہیں کسی معاملے پر اپنی آواز اٹھاتا بھی ہے تو اس لئے نہیں اٹھاتا کہ اسے عوام سے ہمدردی ہے بلکہ وہ اپنی گرتی ہوئی معدوم ہوتی ہوئی شناخت کو بچانے کے لئے ہمدردی کے دو بول بولتا ہے اور اگر حکمران جماعت کی جانب سے اس کے رکے ہوئے کام کردئیے جائیں یا اس کے مطالبات پورے کردئیے جائیں تو وہ بھی پلٹ کر عوام کی طرف نہیں دیکھتا، ہم کس کس کو روئیں کس کا شکوہ کریں اس حمام میں تو سب ہی یکساں ہیں ایک سے ایک بڑا تیس مار خان اسمبلی میں آتا ہے ہونا تو یہ چاہئے کہ اسمبلیوں میں آنے اور انتخابات میں حصہ لینے کے لئے قانون کی سند ہونا ضروری ہو جو لوگ ملک و قوم کے لئے قانون سازی کریں وہ خود ہر قسم کے قوانین سے پوری طرح واقف ہوں لیکن ہمارے ملک کی بد قسمتی یہ ہے کہ یہاں انتخابات میں حصہ لینے کے لئے تعلیم کی کوئی قید نہیں بیشتر ایسے لوگ ارکان اسمبلی منتخب ہوجاتے ہیں جنہیں اپنا نام بھی پڑھنا نہیں آتا وہ بڑی کوشش سے اپنے نام کو بطور دستخط کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ریاست اب تجارتی مال و اسباب بن کر رہ گئی ہے اور ریاست کا مال و اسباب لوٹنے والوں میں اسلحہ بند غنڈے بدمعاش بھی شامل ہو کر سیاست دان کہلائے جا رہے ہیں جو اپنی بد معاشی غنڈہ گردی سے ارکان اسمبلی اور نام نہاد سیاست دان کہلائے جانے والوں کا رعب و دبدبہ اور ٹور قائم کرنے کا کام سر انجام دیتے ہیں اور حکمرانوں کو اس طرح اپنی طاقت کے بل پر اپنی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔
اتنا کہہ کر موصوف غالباً تھک گئے تھے یا ان کے دل کا غبار نکل چکا تو انہوں نے سامنے رکھا پانی کا گلاس ایک ہی سانس میں غٹاغٹ پی لیا پھر سوال کیا آپ کی کیا رائے ہے میں نے مسکراتے ہوئے کہا بھائی آپ نے رائے دینے کی گنجائش ہی کہاں چھوڑی ہے کیا کہوں اگر کچھ باقی رہ گیا ہے سو وہ بھی کہہ ڈالئے، بولے جب تک ایسے لوگ قانون ساز اداروں میں آتے رہیں گے ملک و قوم کا یوں ہی بیڑہ غرق ہوتا رہے گا۔ میں نے دریافت کیا اس کا کوئی تو حل ہوگا بولے اب ملکی سیاست لا علاج مرض بن چکی ہے اس کا علاج اب فقط ڈنڈے سے ہی ممکن ہے جناب اگر ڈنڈا چل گیا تو آپ کی جمہوریت کا آپ کی سیاست کا کیا ہوگا بولے کم از کم اس بے حس عوام کا تو بھلا ہوگا۔ سیاست دانوں کا نا ہو ملک و قوم کا تو بھلا ہوگا اتنا کہہ کر انہیں کچھ سکون میسر آیا تو اٹھ کر چل دئیے ہم بس دعا ہی کرتے رہ گئے۔


.
تازہ ترین