• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارا دوست سسپنس پیدا کررہاتھا اور ہمارے بار بار پوچھنے کے باوجود ہمیں جو ڈش کھلارہا تھا اسے ایک خاص ڈش کہہ رہا تھا اور بجائے کہ ہمارے سوال کا جواب دیتا وہ ہم سے پوچھ رہا تھا کہ ڈش کا ذائقہ کیساہے اور ہم مروت میںیہ کہے جارہےتھے کہ ڈش مزے کی ہے اور وہ ڈش بہت اچھی نہیں تو بدمزہ بھی نہ تھی لیکن ہم اپنے دوست سے پوچھناچاہ رہے تھے کہ ڈش میں یہ گوشت کس کا ہے کیونکہ وہ شروع میں کہہ چکا تھا کہ چکن نما گوشت میں چکن استعمال نہیں کیا گیابس آپ دوستوںکےلیے یہ خاص ڈش تیار کی ہے ایک طرف ہمارے دل میں دوست کی مہمان نوازی اور اس کا دیا جانے والے پروٹوکول تھا اور دوسرا اس کی طرف سے اس خاص ڈش کی کی جانے والی تعریفیں تھیں ، چونکہ بے تکلفی نہیں تھی اس لیے ہم اخلاقی طورپر اور مروت میں ڈش کی تعر یف بھی کررہےتھے اور دبے الفاظ میں ڈش کی حقیقت بھی جاننا چاہ رہے تھے ، لیکن ہمارا میزبان ہمار ے صبر کا امتحان لیتے ہوئے صرف یہ چاہ رہا تھا کہ ہم اس کی اس خصوصی ڈش کی تعریف کرتے رہیں اور میرا خیال ہے یہ کھانے والے کے ساتھ بڑا ظلم ہوتا ہے کہ اس کویہ معلوم نہ ہوکہ وہ کیا کھا رہاہے ، اسی لیے اس وقت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کھانےکے حوالےسے بڑے سخت قواعد و ضوابط اور قوانین بنادیےگئے ہیں، مثلاًآپ کھانے کی پیکنگ پر اس میں استعمال ہونے والے ہر ہر اجزا کی تفصیل، اس کو بنانے اور اس کے استعمال کی معیاد کے ختم ہونے کی تاریخ یعنی مینوفیکچرنگ اور ایکسپائری تاریخ کو لازمی لکھنا وغیرہ شامل ہیں، اس کے علاوہ ریستورانوں کے کچن کےلیے ایک مکمل ضابطہ موجود ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں انسانی غلطی یا کاہلی کا احتمال نہیں ہوتا لیکن وہاں حفظان صحت کے اصولوں کا بہت خیال رکھاجاتا ہے اور ان مما لک میں ایک انسان کے قتل سے زیادہ بڑا جرم کھانے کی خالص چیزوں میں جعلی اور مضرصحت اشیاء کی ملاوٹ ہے ، اس لیے وہاں صفائی اور حفظان صحت کے حوالے سے بہت خیال رکھاجاتا ہے ، اور اب تو ساری دنیا میں مسلمانوں کی ڈیمانڈکے مطابق حلال حرام کا بھی بہت خیال رکھاجاتاہے اور نہ صرف ہوائی جہاز میں سفر کے دوران مسافروں کی ڈیمانڈ کے مطابق حلال اشیاء پر بنی خوراک اور کھانا وغیرہ مہیا کیاجاتا ہے ، بلکہ بڑےبڑے ہوٹلوں میں بھی اس کا خیال رکھاجاتاہے بلکہ تھائی لینڈکے شہر بنکاک میں بھی سیاحوں کی ڈیمانڈکو سامنے رکھتے ہوئے ایک ایسا ہوٹل کھول دیا گیاہے جہاں صرف حلال فورڈ استعمال اور مہیا کیاجایا کر ے گا۔اس کے برعکس ہمارے ملک میں تو سب کچھ نرالا ہے ،سالہاسال تک بیچارے لوگ گدھے کا گوشت کھاتےرہےاورنہ جانےاب بھی کھارہے ہوںگے، سرکاری مذبحہ خانے جہاں صحت مند جانوروں کو ہی ذبح کرکے صحت مند گوشت ہی عوام تک پہنچانے کا خیال رکھنا چاہیے وہاں بھی بیمار اور زائد العمر بوڑھے جانوروں کو ذبح کرکے ان کا گوشت عوام کو پہنچایاجاتاہے اور سرکاری مذبحہ خانوں کی ذبح شدہ گوشت پر لگائی جانے والی مہر کون سی ایسی جوہری سائنس کی محتاج ہے کہ قصا ئی خود نہیں لگا سکتے، اس کے علاوہ گھی اورخوردنی تیل میں انتڑیوں کے استعمال، بیکریوں ، مٹھائیوں اور دوسری پیکنگ والی اشیاء کی تیاری میں نہ جانے کیا کیا گند ملا کر کھلادیاجاتاہے، کچھ کہا نہیں جاسکتا ابھی جناب جسٹس ثاقب نثار کے حکم پر جب پیکنگ کے دودھ کو لیبارٹیوں میںچیک کیاگیا تو اس میں ایسے ایسے عنصر اور اجزاء کے استعمال ہونےکے انکشافات ہوئے کہ سب لوگ سر پکڑ کر بیٹھ گئے ، بند بوتلوں میں منرل واٹر کے نام سے بیچا جانے والے پانی کا جب بھی لیبارٹری ٹیسٹ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ پانی آلودہ اور صحت کےلیے نقصان دہ ہے لیکن ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی اور کیا اس میں کوئی بہتری آئی عوام کو کچھ معلوم نہیں کیونکہ پانی کے وہی برانڈز اسی طرح مارکیٹ میں فروخت ہورہے ہیں۔بات ہورہی تھی ہمارے ایک دوست کی دعوت اور اس میں کھلائی جانے والی خاص ڈش کی ، خیر دوست اور مہمان داری کو مدنظر رکھتے ہوئے سب نے وہ خاص ڈش تناول کی کھانےکے بعد قہوے کا دور چلا تمام مہمان مختلف بہانوں سے یہ پوچھنا چاہ رہے تھے کہ ڈش کس کے گوشت کی تھی اب ہمارا دوست ہمیں اپنے گھر کے پیچھے بنائے ایک وسیع فارم میںلے گیا جہاں پھولوں اور سبزیوں کی کیاروں کے علاوہ پیچھے ہٹ کر مختلف اقسام کےپرندوں اور جانوروںکے پنجرےلگے ہوئےتھے ، ہمیں موروں ، کبوتروں، طوطوں اور خاص نسل کی مرغیوںکے پنجر ے دکھا تےہو ئےہما را میز با ن ایک پنجرےکے پاس رک گیا، یہ ذرا بڑا پنجرہ تھا اور ہمارے میزبان دوست نے اس پنجرے کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہاکہ میں نے آپ کو ان کا گوشت کھلایا یہ پنجرہ ،خوبصورت اور پھدکتے ہوئے خرگوشوں کا تھا ، خرگوش حلال ہوتا ہے اور ان کا گوشت غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے، لیکن شاید دعوت میں شریک ہمارے اکثر دوست اس سرپرائز کےلیے تیار نہ تھے مجھ سمیت اس سر پرائز کا ری ایکشن کچھ زیادہ اچھا نہ تھا ، پھر جو کچھ ہماری طبیعتوں پر گز را ،میں وہ بیان کرکے اپنے قارئین کی طبیعت پر گراں نہیں گزرنا چاہتا لیکن یہ ضرور کہوں گاکہ ایسے سرپرائز سے پرہیز کرناچاہے اور کھانےسے پہلے ضرور آگاہ کرنا چاہیے کہ یہ ڈ ش کس چیز کی ہے تاکہ جس کا دل چاہیے وہ کھائے اور جس کا دل نہ مانے وہ نہ کھائے اور سرپرائزکے بعد ڈاکٹروں کے پاس جانے سے محفوظ رہے اور فو ڈ کے حو ا لے سے ملک بھر کے قو انین کو سخت بنا کر ان پر عملد آمد بھی کرا یا جا ئے۔کیو نکہ اب پا کستا نیو ں کے معد وں کی وہ حا لت نہیں رہی کہ کہہ دیا جائے کہ’’ لکڑ ہضم ،پتھرہضم‘‘۔


.
تازہ ترین