• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اعلیٰ عدلیہ میں خلاف ضابطہ بھرتیوں کی نشاندہی کرنیو الا افسر جبری ریٹائر

اسلام آباد (انصار عباسی) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جس سینئر عہدیدار نے عدالت میں غیر قانونی بھرتی کی نشاندہی کی تھی، اور جس کی توثیق سپریم کورٹ نے بھی اپنے تاریخی فیصلے میں کی تھی، اسے اپنے عہدے سے معطل کرکے جبری رخصت پر گھر بھیج دیا گیا ہے۔ مسٹر اعجاز احمد اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایڈیشنل رجسٹرار تھے اور انہوں نے زبردست حوصلے اور ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے 2013ء میں کی جانے والی غیر قانونی بھرتیوں پر سوال اٹھایا تھا لیکن شاباشی دینے کی بجائے انہیں معطل کرکے قبل از وقت ریٹائر کر دیا گیا ہے۔ پیر کو سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھرتیوں کیخلاف فیصلہ سناتے ہوئے قرار دیا تھا کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور / یا اسلام آباد ہائی کورٹ کی انتظامی کمیٹی نے آئین کے آرٹیکل 208؍ کے تحت وضع کردہ مینڈیٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ میں بھرتیاں کیں۔ اگر مجاز حکام خود ہی اس طرح جان بوجھ کر لاہور ہائی کورٹ کے رول نمبر 26؍ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے رول نمبر 16؍ کے تحت من پسند لوگوں کو بھرتی کرنے کیلئے میرٹ والے لوگوں کو نظر انداز کریں گے تو اس سے عدلیہ کا تاثر مجروح ہوگا اور عوام کا عدالتوں پر اعتماد بری طرح متاثر ہوگا۔  عدالت ایسے لوگوں کو انصاف فراہم نہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی جو میرٹ پر پورا اترتے ہوں اور ساتھ ہی ایسے افراد کی حوصلہ افزائی بھی نہیں کی جا سکتی جو شفاف طریقہ کار کو نظر انداز کرکے رولز کے تحت بھرتیاں کرنے لگیں۔ اس وقت کے ایڈیشنل رجسٹرار اعجاز احمد نے اقدام کرتے ہوئے مئی 2013ء میں ایک سمری آگے بھجوائی تھی جس میں داخلی آڈٹ اور 2011ء اور اس کے بعد سے ہونے والی بھرتیوں کے معاملے میں اسکروٹنی کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی تجویز دی تھی کہ اشتہار اور مسابقتی طریقہ کار اختیار کیے بغیر ہونے والی بھرتیوں پر سپریم کورٹ کے 1996ء کے فیصلے (ایس سی ایم آر 1349) کے تحت نظرثانی کرنا چاہئے۔ نتیجتاً، اے جی پی آر کے ایک افسر نے آڈٹ کیا اور انہوں نے رائے دی کہ مسٹر ادریس کاسی (اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سگے بھائی) سمیت کوئی بھی شخص 2011ء کے بعد سے میرٹ پر بھرتی نہیں ہوا۔ اے جی پی آر کی رپورٹ ملنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے 9؍ جنوری 2014ء کو ان الزامات کے تحت معطل کر دیا کہ اعجاز احمد نے ایڈیشنل رجسٹرار کی حیثیت سے تقرریوں کی مخالفت کی لہٰذا چیف جسٹس کے اختیارات کو چیلنج کیا۔ اعجاز احمد 20؍ ماہ تک یعنی اگست 2015ء تک معطل رہے اور اس کے بعد 20؍ اگست 2015ء کو انہیں ریٹائر کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے اور قواعد کے تحت، معطلی کا عرصہ تین ماہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ اعجاز احمد کی معطلی اور ریٹائرمنٹ کی بڑی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے قواعد کیخلاف بھرتیوں کی مخالفت کی۔ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جبری ریٹائرمنٹ کو چیلنج کیا اور درخواست اگست 2015ء سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے روبرو زیر التوا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھرتیوں کو 2014ء میں چیلنج کیا گیا، اور س پریم کورٹ نے پیر کو اعجاز احمد کی بات کی توثیق کی اور فیصلہ دیا کہ 2011ء سے کی جانے والی بھرتیوں، بشمول ادریس کاسی کے اپائنٹمنٹ کو، ڈی نوٹیفائی (منسوخ) کیا جائے۔ بادی النظر میں مسٹر اعجاز احمد پر لگایا جانے والا الزام سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اہمیت کھو دیتا ہے لیکن اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ ان کے کیس کا فیصلہ کرنے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ کتنا وقت لگاتی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ہم نے دیکھا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے عدالتی اسٹیبلشمنٹ میں بھرتیوں کیلئے اہلیت اور تقرری کے طے شدہ معیارات میں رد و بدل کرنے کیلئے لاہور ہائی کورٹ کے رول نمبر 26 اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے رول نمبر 16 کے تحت اختیارات استعمال کیے۔ عدالت سمجھتی ہے کہ چیف جسٹس نے مدعا علیہان اور دیگر کی اسلام آباد ہائی کورٹ کی اسٹیبلشمنٹ میں بھرتیوں کے معاملے میں قواعد کی اسکیم کو نظر انداز کیا ہے۔



.
تازہ ترین