• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے دوست نامور کارٹونسٹ ہیں، وہ اپنے دفتر میں کام میں منہمک تھے کہ اچانک انہوں نے دیکھا، ان کے سامنے ایک اجنبی شخص بیٹھا ہوا ہے انہوں نے اس کی طرف حیرت سے دیکھا تو وہ بولا۔ ’’معافکیجئےگا، آپ اتنی گہری سوچ میں تھے اس لیے میں نے آپ کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ آپ غالباً کسی کارٹون کی تخلیق کے بارے میں سوچ رہے ہوں گے۔‘‘ میرے دوست اب تک حیرت زدہ تھے۔ اس شخص نے کمرے میں ادھر ادھر دیکھا اور پھر بولا۔ ’’ویسے میں آپ کو ایک معرکۃ الآرا کارٹون کا آئیڈیا دیتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے جو کچھ پیرس میں شائع ہوا اس سے آپ کو دکھ ہوا ہوگا، اب اس کا بہترین جواب یہ ہے کہ آپ بھی ان کی شخصیات کو موضوع بنالیں۔‘‘ میرے دوست نے فوراً اس کی بات کاٹی۔’’نہیں، نہیں، میں تو کیا، یہاں کوئی بھی شخص ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پھرہم میں اور ان میں فرق کیا رہ جائے گا۔ ہمارے ہاں کوئی بھی شخص اپنا ایمان خراب نہیں کرسکتا۔‘‘میرے دوست کے لہجے نے اسے خاموش کرادیا، وہ اجنبی شخص کچھ دیر خلا میں گھورتا رہا۔ میرے دوست بڑے بامروت آدمی ہیں، انہوں نے اس شخص سے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔ ’’معاف کیجئے گا، میں آپ کو پہچانا نہیں۔ آپ اپنا تعارف کرائیں گے۔؟وہ شخص مسکرایا اور کہنے لگا ’’ارے بھائی مجھے ایک مسافر سمجھ لیں دنیا بھر میں گھومتا پھرتا ہوں۔ ہر وقت سفر میں رہتا ہوں۔ ابھی پچھلے دنوں تو بہت مصروف رہا۔ میں چاہتا تھا کہ مسلمانوں میں جذبہ جگایا جائے۔ میں نے ہی پیرس میں شارلی ہیبڈو کے کارٹونسٹ کو آئیڈیا دیا تھا۔ جب ان کے وہ شاہکار شائع ہوگئے تو میں انتظار کرتا رہا کہ مسلمانوں میں ہلچل مچے۔ لیکن کتنے ہی مہینے گزر گئے، کچھ بھی نہ ہوا۔ ادھر فرانس کی پارلیمنٹ نے فلسطین کو تسلیم کرلیا اور اسرائیل سے کہا کہ وہ فلسطین پر سے قبضہ ختم کردے۔ یورپ میں سب سے زیادہ مسلمان فرانس میں رہتےہیں اور فرانس کی آواز یورپی یونین میں دہشت گردی کی جنگ کے خلاف سب سے اونچی آواز ہے۔‘‘میرے دوست کی نظر اس اجنبی شخص پر جمی ہوئی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یا تو یہ شخص کوئی بہت خطرناک ایجنٹ ہے یا پھر بہت بڑا گپی ہے۔ لیکن اس اجنبی شخص کے چہرے پر ایک بہت پر اعتماد آدمی کا سا تاثر تھا۔ اس شخص نے میرے دوست کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ’’تم میری باتوں پر حیران ہورہے ہوگے۔ لیکن میں تمہیں مزید بتانا چاہتا ہوں کہ شارلی ہیبڈد وپر کارروائی کے لیے میں نے ہی لوگ تیار کیے۔ بہت ماہر لوگوں کا انتخاب کیا۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ کارروائی کے بعد ’’اللہ اکبر‘‘ کا نعرہ ضرور لگانا۔ اور زور زور سے کہنا۔ ہم نے بدلہ لے لیا۔ پھر وہاں سے اپنی کار میں بھاگنا۔ آگے جاکر کار کو آگ لگادینا۔ اس میں دو آئی ڈی کارڈ ڈال دینا۔ پھر ایک کار چھیننا اور اس شخص سے کہنا کہ ہمارا تعلق یمن سے ہے۔ اس واقعےکے لئے میں نے دو ڈمی شخص بھی تیار کیے اور پھر ان کو مار دینے کا آئیڈیا بھی میں نے ہی دیا۔‘‘یہ باتیں سننے کے بعد میرا دوست پریشان سا ہوگیا۔ اسے یقین تھا یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے۔ لیکن اب وہ یہ سوچ رہا تھا کہ یہ شخص یہ ساری باتیں جو شاید گپ ہیں یا جھوٹ ہیں، مجھے کیوں سنا رہا ہے؟ وہ اجنبی شخص میرے دوست کی کیفیت بھانپ گیا۔ اس نے کہا ’’آپ سوچ رہے ہوں کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں، نہیں، میں جھوٹا نہیں ہوں۔ شارلیہیبڈو کے واقع کے بعد میں نے بہت مصروف دن گزارے۔ میں نے پیرس میں مظاہرے کا آئیڈیا دیا۔ میں نے فرانس میں لوگوں سے کہا کہ دنیا کے لیڈروں کو بلائو۔ میں نے مظاہرے کے منتظمین سے کہا کہ رسالے میں شائع ہونے والے خاکوں کے بڑے بڑے پوسٹر بنائے جائیں اور مظاہرہ کرنے والے لوگ یہ پوسٹر ہاتھوں میں لے کر چلیں۔ اس مظاہرے کے بعد پھر میں واشنگٹن گیا۔ وہاں میں نے ان سے کہا کہ وہ شارلیہیبڈو کی کارروائی کو اظہار رائے کی آزادی قرار دیں۔ وہاں سے میں آسٹریلیا گیا۔ کینیرا میں وزیراعظم سے ملا اور ان سے کہا کہ اس کام کو اظہار رائے کی آزادی قرار دیں۔ آسٹریلیا سے سیدھا لندن گیا اور برطانوی وزیراعظم سے بھی کہا کہ آپ بھی اظہار رائے کی آزادی کی بات کریں۔ خوشی ہے کہ میں اس سارے مشن میں کامیاب رہا۔‘‘
میرا حیرت زدہ دوست کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے اجنبی شخص سے پوچھا۔ ’’میرا پتہ آپ کو کس نے دیا؟‘‘ اس پر وہ شخص پھر زور سے ہنسا اور کہنے لگا۔ ’’مجھے آپ کے کارٹون بہت پسند ہیں، بس میری خواہش تھی کہ مسلمانوں کی طرف سے آپ انکو جواب دیں، اپنے کارٹونوں کے ذریعے۔‘‘میرے دوست نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ ’’جناب‘‘ یہ تو ہو نہیں سکتا ۔اس کے بعد اس شخص نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا میں ایک پر خلوص آدمی ہوں۔ چاہتا ہوں کہ مسلمان جذبہ دکھائیں۔ آپ سے مجھے بڑی امید ہے۔ میرا بریف کیس ڈالروں سے بھرا ہوا ہے۔ آپ کارٹون بنائیں میں آپ کو ایک لاکھ ڈالر کی آفر کرتا ہوں۔ میں دو تین یا پانچ لاکھ ڈالر بھی دے سکتا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا بریف کیس کھول دیا جس میں ڈالروں کی گڈیاں تہہ در تہہ رکھی ہوئی تھیں۔ وہ بولا ’’دوست میں دس لاکھ ڈالر تمہیں دے سکتا ہوں، بس بنا دو ایسے کارٹون، ایسے کہ ان کے تن بدن میں آگ لگ جائے۔‘‘اس کی یہ بات سن کر میرے دوست کے منہ سے بے اختیار نکلا ’’لاحول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ اور میرا دوست حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا۔ وہ شخص پلک جھپکتے میں یکایک غائب ہوگیا، نہ دروازہ کھلا نہ کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے۔ لیکن وہ شخص جیسے فضا میں تحلیل ہوگیا ہو۔ میرے دوست نے اس کرسی کی گدی پر ہاتھ رکھا جس پر وہ بیٹھا تھا وہ گرم تھی اس کا مطلب ہے کہ وہ یہاں تھا لیکن وہ کون تھا؟
تازہ ترین