• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسے وقت میں جب وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف امریکہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کررہے تھے جس میں انہوں نے دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے انسانیت سوز مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی کی طرف مبذول کرائی، اُسی روز امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں امریکی کانگریس کے 2 اراکین نے کانگریس میں ایک پاکستان مخالف بل پیش کیا جس میں پاکستان کو دہشت گردوں کی مدد کرنے والی ریاست قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ بل بھارتی لابی کے اراکین اور امریکی کانگریس کی کمیٹی برائے دہشت گردی کے سربراہ ٹیڈ پائو اور کانگریس کے رکن ڈینا روراباکر نے پیش کیا جس میں انہوں نے پاکستان کو ’’ناقابل بھروسہ اتحادی‘‘ قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ پاکستان، امریکہ کے دشمنوں کی برسوں تک اعانت کرتا رہا ہے اور پاکستان کے بارے میں اسامہ بن لادن کو پناہ دینے سے لے کر حقانی نیٹ ورک سے تعلقات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ کانگریس اراکین نے اپنے بل میں مطالبہ کیا کہ امریکی حکومت پاکستان کی امداد فوری طور پر بند کرے اور پاکستان کو دہشت گردی کی حمایت کرنے والی ریاست قرار دیا جائے۔ واضح ہو کہ بل پیش کرنے والے مذکورہ اراکین کانگریس بھارت کے حمایتی تصور کئے جاتے ہیں جو اِس سے قبل پاکستان کو دی جانے والی فوجی و مالی امداد روکنے کا مطالبہ بھی کرچکے ہیں۔ کچھ روز قبل انہی اراکین نے اُڑی سیکٹر واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ پاکستان جہادی گروپوں کی تائید و حمایت کرتا رہا ہے اور پاکستان کا یہ رویہ پڑوسی ممالک کیلئے خطرہ بن چکا ہے۔
20 برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کی مذکورہ قرارداد امریکی کانگریس میں پیش کی گئی ہے۔ ممبئی حملے کے بعد بھارت نے بھی امریکہ سے اسی طرح کا مطالبہ کیا تھا مگر امریکی حکومت کی جانب سے پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئی تھی تاہم حال ہی میں کانگریس اراکین نے پاکستان کو انسداد دہشت گردی کی مد میں دی جانے والی 30کروڑ ڈالر کی امدادی رقم اس لئے روک دی تھی کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف موثر کارروائیاں نہیں کیں۔ امریکی کانگریس میں پیش کیا جانے والا مذکورہ بل اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ اور پاکستان کے مابین تعلقات کس قدر تیزی سے خراب ہورہے ہیں۔ امریکی قانون کے مطابق کانگریس میں بل پیش ہونے کے 90 روز کے اندر امریکی صدر کو رپورٹ پیش کرنا ہوگی کہ آیا پاکستان دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے یا نہیں؟ بعد ازاں 30 روز میں امریکی وزیر خارجہ ایک رپورٹ جاری کریں گے جس میں وضاحت کی جائے گی کہ وہ کون سے قانونی طریقے ہیں جن کے تحت پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ بھارتی حکومت کی جانب سے امریکہ میں مقیم بھارتی کمیونٹی کو یہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علاقے سے منتخب ہونے والے امریکی کانگریس کے اراکین سے رابطہ کرکے اُنہیں پاکستان مخالف بل کی حمایت کیلئے آمادہ کریں جبکہ پاکستان کے خلاف مذکورہ بل کے علاوہ امریکہ میں مقیم بھارتی نژاد امریکی شہری بھارتی حکومت کی ایماپر وائٹ ہائوس کیلئے ایک آن لائن پٹیشن بھی لانچ کررہے ہیں جس میں وہ امریکی صدر سے پاکستان کو دہشت گرد ملک قرار دینے کی درخواست کریں گے۔ امریکی قانون کے مطابق اگر کسی پٹیشن پر ایک لاکھ افراد دستخط کردیں تو امریکی صدر پٹیشن پر غور کرنے کا پابند ہوتا ہے۔
امریکی کانگریس میں پیش کیا جانے والا پاکستان مخالف بل اور امریکہ میں مقیم بھارتی کمیونٹی کی جانب سے چلائی جانے والی مہم نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ کی عکاسی کرتی ہے جس کا وہ کئی بار کھل کر اظہار کرچکے ہیں کہ پاکستان کو بہت جلد بین الاقوامی سطح پر تنہا (آئسولیٹ) کردیا جائے گا۔ اطلاعات ہیں کہ نریندر مودی نے پاکستان پر معاشی دبائو بڑھانے کیلئے کچھ روز قبل اپنے مشیروں کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ ایسی ملٹی نیشنل کمپنیاں جو بھارت اور پاکستان میں آپریٹ کررہی ہیں، اُنہیں یہ پیغام دیا جائے کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلیں لیکن جب نریندر مودی کو یہ بتایا گیا کہ بھارتی حکومت کا یہ عمل عالمی تجارتی معاہدے کی خلاف ورزی ہوگا تو نریندر مودی نے حکمت عملی تیار کی کہ بھارتی شہریوں کو اس بات پر راغب کیا جائے کہ وہ ایسی بین الاقوامی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں جو پاکستان میں بھی بزنس کررہی ہیں تاکہ یہ کمپنیاں پاکستان میں اپنا کاروبار ختم کرنے پر مجبور ہوجائیں اور پاکستان کی معیشت متاثر ہو۔ نریندر مودی نے کچھ اسی طرح کی حکمت عملی اُن کمپنیوں کیلئے بھی تیار کر رکھی ہے جو پاکستان سے مصنوعات امپورٹ کرتی ہیں جبکہ وہ پاکستان کی معیشت تباہ کرنے کیلئے سندھ طاس معاہدے پر نظرثانی کرکے دریائوں کا پانی روکنے کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔
بھارت نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان پر دبائو بڑھانے کیلئے اس وقت امریکہ میں کانگریس اراکین سے اثر و رسوخ رکھنے والی دو لابی کمپنیاں ہائر کر رکھی ہیں جو امریکی کانگریس کے اراکین کو پاکستان کے خلاف استعمال کررہی ہیں۔ اس کے برعکس پی پی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک موجودہ حکومت نے کسی امریکی لابی کمپنی سے معاہدہ نہیں کیا ہے۔ پی پی حکومت نے اپنے دور میں لاک یارڈ نامی لابی کمپنی سے معاہدہ کیا تھا جسے ماہانہ 75 ہزار ڈالر کی ادائیگی کی جارہی تھی مگر مذکورہ فرم نے پاکستان کیلئے کوئی خاص لابنگ نہیں کی۔ موجودہ حکومت کو چاہئے کہ وہ امریکہ میں کم از کم ایک اچھی لابنگ کمپنی کی خدمات حاصل کرے تاکہ امریکہ میں پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا سدباب کیا جاسکے جبکہ امریکہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی اور کشمیریوں کو بھی چاہئے کہ وہ وائٹ ہائوس کیلئے بھارت مخالف ایک آن لائن پٹیشن لانچ کریں جس میں مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت سے اوباما انتظامیہ کو آگاہ کیا جائے تاکہ پاکستان مخالف بھارتی سازشیں کامیاب نہ ہوسکیں۔
میں اس سے قبل بھی لکھ چکا ہوں کہ جب سے پاکستان اور چین کے مابین سی پیک معاہدہ ہوا ہے، یہ منصوبہ امریکہ اور بھارت کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ ملک دشمنوں کی پوری کوشش ہے کہ کسی طرح یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے جس کیلئے امریکہ اور بھارت ایک دوسرے کے قریب تر ہوتے جارہے ہیں جبکہ بھارت، افغانستان کو بھی پاکستان مخالف مقاصد کیلئے استعمال کررہا ہے۔ بھارت کا خطے میں جنگی ماحول پیدا کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ سی پیک پر کام کرنے والے چینی جنگ کے خوف سے پاکستان چھوڑ کر چلے جائیں تاکہ سی پیک منصوبہ تاخیر کا شکار ہوجائے۔اب وقت آگیا ہے کہ حکومت پاکستان اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرے اور بلاتاخیر متحرک وزیر خارجہ کا تقرر کیا جائے جو عالمی سطح پر پاکستان کا موقف اجاگر کرسکے۔
گوکہ حکومت پاکستان پراُمید ہے کہ امریکی کانگریس میں پیش کئے جانے والے پاکستان مخالف بل کو کانگریس اراکین کی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہوگی تاہم ہمیں زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے بلکہ ایسے نازک موقع پر جب پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سطح پر سازشیں کی جارہی ہیں، ہمیں سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے دھرنوں اور مظاہروں کی سیاست چھوڑ کر ان سازشوں کا مقابلہ کرنا چاہئے کیونکہ اگر دشمن اپنی چالوں میں کامیاب ہوگیا تو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ متاثر ہوسکتا ہے جس سے پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ نائن الیون واقعہ کے بعد سے اب تک پاکستان، امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی اور دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے مگر آج پاکستان سے دوستی کا دعویٰ کرنے والے امریکہ کی کانگریس میں بھارتی مطالبے پر دہشت گردی کا شکار اتحادی ملک کو ’’دہشت گرد ملک‘‘ قرار دینے کا بل پیش کرنے سے سپر پاور کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ ’’امریکہ جس کا دوست ہو، اُسے کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔‘‘

.
تازہ ترین