• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت سے پاکستانی حلقوں کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر مکمل طور پر ’’مجاہدانہ‘‘ نہیں تھی۔ حزب اختلاف کی رائے میں وزیر اعظم کی تقریر میں بلوچستان میں ہندوستان کی در اندازی کو نظر انداز کیا جانا حب الوطنی کے تقاضوں کے خلاف تھا۔ وزیر اعظم جو بھی تقریر کرتے دنیا کی نظر میں پاکستان اور ہندوستان کے رہنماؤں کی ایک دوسرے کے ملک کے خلاف جوشیلی تقریریں خطے کا اپنا مخصوص مسئلہ ہیں۔ اس لئے اقوام متحدہ میں پاکستانی یا ہندوستانی رہنماؤں کی تقریروں کے نتیجے میں عالمی سیاست پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ حقیقت دونوں فریقوں کے رہنماؤں کو معلوم ہے لیکن وہ اپنے اپنے عوام کے جذبات کی تشفی کے لئے ایک دوسرے کے خلاف بڑھ چڑھ کر بیان بازی کرتے ہیں۔ عوام ان تقریروں کو سن کر سمجھتے ہیں کہ ان کے نقطہ نظر کی عالمی سطح پر عکاسی ہو گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کے رہنما انہیں خود فریبی میں مبتلا کر رہے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں میڈیا اور عوامی حلقے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف کی تقریر نے عالمی ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے اور اب دنیا کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے آگاہ ہو چکی ہے۔ کشمیر پر بھارت کی ظلم و بربریت ایک کھلی حقیقت ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ عالمی ضمیر کا کہیں وجود نہیں ہے ۔ دنیا کے مقتدرہ ممالک اپنے اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر مسئلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اپنی خود فریبی میں لاکھ سمجھیں کہ کشمیر کے مسئلے پر ہندوستانی ظلم و جبر کی داستان سے ہندوستان پر عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے لیکن حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ پاکستان کی دہائی پر نہ تو امریکی کانگریس میں ہندوستان کے خلاف کوئی قرارداد آئی ہے اور نہ ہی فرانس نے اسے جدید ترین جنگی طیارے بیچنے سے انکار کیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کسی مسلمان ملک نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر کا ذکر نہیں کیا۔
اگر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اپنی تقریر میں مسئلہ کشمیر کی طرف اشارہ بھی کر دیتے تو کہا جا سکتا تھا کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر کو کامیابی سے اجاگر کیا ہے۔ جنرل سیکرٹری نے فلسطین سمیت دنیا کے بہت سے مسائل کا ذکر کیالیکن وہ کشمیر کو دانستہ طور پر نظرانداز کر گئے۔ اقوام متحدہ کشمیر میں انسانی حقوق کا کمیشن بھیجنے کا اعلان کر سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس کے باوجود پاکستان کے سفارت کار یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جیسے ہندوستان کو تنہا کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے اور وہ دن دور نہیں جب دنیا کشمیر کے مسئلے پر ہندوستان کا ناطقہ بند کردے گی۔حقیقت یہ کہ صرف ترکی (جوآرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز کا صدر ہے) نے عندیہ دیا ہے کہ وہ کشمیر میں حقائق معلوم کرنے کے لئے کمیشن بھیج سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے پاکستان کی عمومی حمایت (کشمیر پر نہیں) کا اعلان کیا ہے۔ غرضیکہ پاکستان کی مسئلہ کشمیر پر دنیا کے کسی ملک نے حمایت نہیں کی۔
سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ سفارتی سطح پر ’’دنیا‘‘ ہے کیا؟ عالمی سطح پر حمایت حاصل کرنے کا یہ مطلب تو غالباً نہیں ہے کہ گمبیا یا گبون پاکستان کی حمایت کا اعلان کردیں (اگرچہ انہوں نے بھی ایسا نہیں کیا)۔ عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے سے مراد ہے کہ سیکورٹی کونسل کے پانچ مستقل ممبران اور دنیا کے دوسرے طاقتور ممالک (جیسے جرمنی یا جاپان) کو اپنے نقطہ نظر سے متفق کیا جائے یا مخالف فریق کے خلاف ان کے جذبات کو ابھارا جائے۔ دنیا میں امریکی سپر پاور کی خصوصی اہمیت ہے کیونکہ تمام تر صنعتی ممالک اس کی عالمی پالیسیوں کی پیروی کرتے ہیں۔ اگرچہ روس اور چین بھی عالمی منظر نامے پر خصوصی اہمیت کے حامل ہیں لیکن ابھی تک وہ امریکہ کے عالمی کردار کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔اگر عالمی منظر نامے کی ٹھوس حقیقت کا جائزہ لیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر کئے بغیر کسی مسئلے کو اجاگر نہیں کیا جا سکتا۔افغان جنگ کے دوران جب امریکہ کو پاکستان کی شدید ضرورت تھی تو اس نے اس وقت بھی کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کا ساتھ دینے کی بجائے غیر جانبدار رہنے کو ترجیح دی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب امریکی پاکستان کے نیو کلیئر پروگرام کو بھی نظرانداز کرنے کے لئے تیار تھے۔ اگر امریکہ نے اس ضرورت کی گھڑی میں پاکستان کا کشمیر کے مسئلے پر ساتھ نہیں دیا تو اب تو یہ ویسے ہی ناممکن ہے کیونکہ اب تو امریکہ کے پاکستان کے بارے میں شدید تحفظات ہیں۔
اس مسئلے کا یہ پہلو بھی ہے کہ ہندوستان بھی اقوام متحدہ سے کوئی قرارداد منظور نہیں کرواسکتا۔ اس کے رہنما بھی جنرل اسمبلی میں اپنے شور و غوغا سے پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے پر ’’دنیا‘‘ کو ہم خیال نہیں بنا سکتے۔ دنیا کے بہت سے ممالک نے اوڑی کے واقعہ پر ہندوستان سے اظہار ہمدردی کیا ہے لیکن کسی ملک نے بھی براہ راست پاکستانی ریاست کو اس کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ اسی لئے شاید ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے عوامی خطاب میں ایسا دعویٰ نہیں کیا اور صرف یہ کہا ہے کہ وہ پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیں گے۔ پاکستان پہلے ہی سفارتی سطح پر کافی تنہائی کا شکار ہے لیکن اس کی وجہ مودی کی کوششوں کی بجائے ہماری اپنی مخصوص پالیسیاں ہیں۔
دریں اثنا ہندوستان اور پاکستان سندھ طاس معاہدے پر قانونی جنگ میں تیزی لا رہے ہیں۔ ہندوستان کی وزارت خارجہ نے اشارہ کیا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔ دونوں ممالک ورلڈ بینک میں ایک دوسرے کے ڈیموں اور ہائیڈرو پروجیکٹس پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کا ایک وفد رواں ہفتے ورلڈ بینک میں ہندوستان کے ریتلے ہائیڈرو پروجیکٹ کے خلاف مقدمے کی پیروی کرنے کے لئے آرہا ہے: ریتلے ہائیڈرو پروجیکٹ مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب پر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ورلڈ بینک سندھ طاس معاہدے کا ضامن نہیں ہے اور اگر ہندوستان معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو ورلڈ بینک کچھ نہیں کرسکتا۔ اس صورت میں پاکستان کو عالمی عدالت میں جانا پڑے گا۔ غرضیکہ بڑھتا ہوا پاک ہند تنازع دونوں ممالک کے لئے بہت سی مشکلات پیدا کر رہا ہے جن کا حل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریروں سے نہیں نکل سکتا:یہ تقریریں دونوں ملکوں کے عوام میں خود فریبی کے فروغ کا باعث بن رہی ہیںاور جنگجویانہ فضا پیدا ہورہی ہے۔

.
تازہ ترین