• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس کالم میںشامل موضوعات میں سے ہر موضوع ایک تفصیلی کالم کا متقاضی ہے کیونکہ ان سب کا تعلق وطن عزیز کی سلامتی اور بقاء کے اہم امور سے ہے۔ جہاں تک وزیراعظم نواز شریف کی تقریر کا تعلق ہے تو انہوں نے عالمی صورتحال اور زمینی حقائق کی مصلحتوں کی پرواکئے بغیر مسئلہ کشمیر، کشمیر یوں پر بھارتی مظالم، پاکستان کا اصولی موقف اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں کو بیان کرتے ہوئے وہ سب کچھ کہہ دیا جو میرے مشاہدے کے مطابق گزشتہ 35سال کے عرصہ میں کسی بھی پاکستانی صدر یا وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اتنا مفصل ذکر نہیں کیا۔ اسی طرح انہوں نے تقریباً ایک درجن غیرملکی سربراہان و قائدین سے دو طرفہ ملاقاتوں میں بھی اپنی طرف سے کشمیر کی صورتحال اور مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں پاکستان کا موقف بھی بیان کیا ہے۔ البتہ دیگر ملکوں کے مفادات، جنوبی ایشیا کے زمینی حقائق اور بدلتی ہوئی عالمی صورتحال کے باعث دیگر ملکوں نے کیسے ردعمل کا جواب دیا ہے وہ ایک الگ باب ہے۔ وزیراعظم نے پاکستانی قوم کے موقف کو پیش کیا ہے۔ امریکہ کے بھارت سے اتحاد کے باعث مفادات اور ترجیحات تبدیل ہو چکی ہیں۔ مختصر یہ کہ امریکی اتحاد کے نشے میں بھارت وزیراعظم نواز شریف کی تقریر پر سخت چراغ پا ہے۔ 24؍ستمبر کو کیرالہ میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان کے خلاف جو زہر اگلا ہے وہ اس بات کا مظہر ہے کہ نریندر مودی بھارتی قوم میں پاکستان کے خلاف مزید اشتعال پھیلارہے ہیں۔ بہرحال نریندر مودی کے بھارت سے پاکستان کے ساتھ محاذ آرائی کے تمام امکانات سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ بھارتی میڈیا بھی بھارت میں جنگی ہسٹریا طاری کرنے کا کام کررہا ہے۔
ایک شور تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج 26؍ستمبر کو اپنی تقریر میں پاکستان کے خلاف بڑا طوفان کھڑا کریں گی اور نہ جانے وہ کیا مسائل پیدا کر ڈالیں لیکن ان کی اقوام متحدہ میں تقریر اصولوں سے خالی اور محض اشتعالی نعرے پر مبنی تھی کہ ’’کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور رہے گا‘‘۔ جنرل اسمبلی میں سشما سوراج کا یہ نعرہ صرف دومنٹ کے پیدل فاصلے پر اقوام متحدہ کی، ڈاگ ہیمر شولڈ لائبریری کے ریکارڈ میں موجود سلامتی کونسل کی ان قراردادوں اور اسمبلی میں موجود عالمی برادری کے نمائندوں کا مذاق اڑا رہا تھا کہ بھارت کاکشمیر پر قبضہ ان تمام عالمی فیصلوں ریکارڈ اور عالمی برادری پر بھاری ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے نواز شریف کی تقریر کا مدلل جواب دینے کی بجائے اور غیرمشروط طور پر مذاکرات کی پیشکش کا جواب یہ کہہ کر دیا ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے اپنے عہدے کی حلف برداری کی تقریب میں وزیراعظم نواز شریف کو مدعو کرنے میں کوئی شرط نہیں لگائی۔ عید کی مبارکباد غیرمشروط طور پر دی اور افغانستان سے لاہور وہ کسی شرط کے بغیر آئے تھے۔ سشما سوراج کے سفارتی اور سیاسی مزاج کو ملاحظہ کیجئے کہ محض رسمی مبارکباد اور غیرسفارتی انداز کے فعل کو بھی غیرمشروط ڈائیلاگ کا نام دیکر اپنی غیرسنجیدگی کا بھونڈا اظہار کررہی ہیں۔ دوطرفہ ملاقاتوں میں خود بحران میں پھنسے ہوئے ترک صدر ایردوان کی پاکستان کیلئے کھلی حمایت قابل تحسین ہے۔ چین ہماری حمایت ضرور کررہا ہے اور کرے گا لیکن پاک بھارت تصادم سے بچنے کی تلقین پاکستان کو بھی کی ہے اور خود بھی ایسی صورتحال میں جنگی اتحادی بننے سے فی الحال دور رہے گا۔امریکہ کا موقف سب پر عیاں ہے پٹھان کوٹ اور اوڑی سیکٹر کے واقعات میں وہ بھارت کو مظلوم اور پاکستان کو ذمہ دار قرار دینے کے بھارتی موقف کا حامی ہے۔ برطانیہ امریکی فیصلوں اور پالیسی کا نہ صرف حمایتی ہے بلکہ وقت پڑنے پر وہ واشنگٹن کا اتحادی ثابت ہوا۔ مختصر یہ کہ بھارت نے پاکستان مخالف مہم میں افغانستان اور بنگلہ دیش کے نرخرے پر انگوٹھا رکھ کر اپنی حمایت میں بیانات کا زور بھی باندھ لیا ہے۔ ہمارا موقف اصولی طور پر بہت مضبوط اور مدلل ہے مگر خطے کے زمینی حقائق، گلوبلائزیشن کے دبائو میں اتحاد ثلاثہ میں بندھے ہوئے امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے مفادات خطے میں تاریخ اور جغرافیہ کو تبدیل کرکے بھارت ماتا کو اکھنڈ بھارت میں تبدیلی کے خواب اور ارادوں کے باعث پاکستان ایک ایسے چیلنج سے دوچار ہے جس میںاپنے ہی بازو پر انحصار کرکے پاکستان کو خود ہی اس سے نمٹنا ہوگا۔ ملکی سیاستدان ہوش کے ناخن لیں اور کرسی کی سیاست چھوڑ کر ملک بچانے کیلئے سرجوڑ کر بیٹھیں۔
چند الفاظ میں ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ اور ہیلری کلنٹن کے 26؍ستمبر کے پہلے مباحثہ کا ذکر بھی یوں ضروری ہے کہ ہیلری اور ٹرمپ میں مقابلہ سخت ہے۔ بھارت تو اسرائیل کی طرح امریکی انتخابی سیاست کے کنفیوژن کا فائدہ اٹھا کر بھی خطے میں بہت کچھ یوں کرنا چاہتا ہے کہ ان دنوں میں کوئی بھی امریکی صدر سیاستدان کچھ بھی موقف اپنانے سے احتیاط کرکے اپنی سیاسی بقا کیلئے جدوجہد کرتا ہے۔ اس وقت نہ تو اوباما اور نہ ہی ہیلری کلنٹن کسی بھارتی جارحیت کی مذمت کی پوزیشن میں ہے اور ٹرمپ تو کھلے بندوں پاکستان اور مسلم مخالف پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
جہاں اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی ہال میں عالمی برادری نے وزیراعظم نواز شریف اور بھارتی وزیر سشماسوراج کے موقف کو سنا وہاں امریکی صدارت کیلئے دونوں امیدوار ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹر مپ کے موقف کو امریکی ووٹرز اور دنیا نے نیویارک کی ھافسٹرا یونیورسٹی میں مختلف مسائل پر مباحثہ کی شکل میں 100 ملین امریکیوں نے معیشت، تجارت، سائبر سیکورٹی امریکہ میں نسلی تعلقات، ڈونلڈ ٹرمپ کے عورتوں کے بارےمیں ریمارکس کے حوالے سے ہیلری کلنٹن کی تنقید سمیت مختلف امور پر موقف سنے۔ مسلم دنیا کا ذکر بھی آیا اور نیو کلیئر اور پر پالیسی اور پرفارمنس بھی زیر بحث رہی۔ گن کنٹرول پر ہیلری کلنٹن اور ٹرمپ کے درمیان سخت پالیسی اختلافات کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ گن کے حق میں کام کرنے والی لابی ٹرمپ کی حمایت کررہی ہے۔ ماضی کے ڈیموکریٹ اور ری پبلکن امیدواروں کے مباحثوں کے تناظر میں میری رائے یہ ہے کہ اس تاریخی مباحثہ میں ہیلری کا پلہ بھاری رہا ہے۔ انہوں نے اپنے اعتماد اور چہرے پر سکون کے تاثرات کے ساتھ متعدد نکات پر ڈونلڈ ٹرمپ کا موثر گھیرائو کیا جن میں نسلی تعلقات اور عورتوں سے ٹرمپ کے سلوک کو اجاگر کرتے ہوئے خواتین کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی ان دونوں محاذوں پر ٹرمپ اپنا کمزور دفاع کرتے نظر آئے جبکہ ای میلز اور ہیلری پر اعتماد (TRUST) کے معاملے کو ٹرمپ نے اچھالا ان کی صحت اور صدارتی ذمہ داریوں کے بوجھ کے حوالے سے ہیلری کو غیرموزوں قرار دینے کی بات بھی کی لیکن اس تمام مباحثے میں ہیلری کلنٹن نے اپنے طویل تجربہ اور سینیٹ میں قانون سازی کو اپنی اضافی قابلیت شمار کروایا ٹرمپ کے ماضی کے ریکارڈ سے نسلی امتیاز، کاروبار میں 4 بینک کرپسیاں، اپنے ٹیکس گوشوارے پبلک کو نہ کرنے اور صرف دولت مند طبقے کو مراعات کے حامی ہونے کے حوالے سے پیش کیا۔ ہیلری کلنٹن خود کو مڈل کلاس کا امیدوار جبکہ ٹرمپ کو دولتمندوں کا امیدوار قرار دیتی ہیں۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ انہیں 200 سے زائد امریکی جنرلوں اور فوجیوں کی حمایت حاصل ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ری پبلکن امیدوار سابق امریکی فوجیوں اور حاضر سروس فوجیوں میں ہمیشہ مقبول رہے مگر اس مرتبہ کیپٹن ہمایوں خان کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے ریمارکس نے انہیں فوجی حلقوں میں شدید نقصان پہنچایا ہے۔ مختصر یہ کہ صدر کا انتخاب صرف امریکی ووٹرز نے کرنا ہے اور جو معیشت اور قیادت کے بارے میںامریکی ووٹرز کو قائل کرے گا وہی صدر منتخب ہو کر کشمیر، نیوکلیئر امور، بھارت امریکہ تعلقات پاک امریکہ تعلقات اور اگلے چار سال کی عالمی صورتحال کے بارے میں دنیا پر اثرانداز ہوگا۔ مسلم دنیا تو اپنے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے مگر کوئی سوچ اور فیصلہ کرکے سمت اختیار کرنے کی سکت اور صلاحیت بھی نہیں رکھتی۔ ٹرمپ کے صدر ہونے سے خوف زدہ ضرور ہے مگر ہیلری کے صدر بننے کی صورت میں بھی مسلم دنیا کی اسٹرٹیجی کچھ بھی نہیں ہے۔

.
تازہ ترین