• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے معاشرے میں جرائم کی رفتار جس تیزی سے بڑھ رہی ہے اس سے دو ہی نتیجے اخذ کئے جا سکتے ہیں۔پہلا نتیجہ یہ کہ انتظامیہ اور حکومت اس رفتار کو خاطر میں نہیں لاتے۔ لہٰذا ان کے نزدیک کوئی تشویشناک بات نہیں، دوسرا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جرائم کوختم کرنے کیلئے ذرائع انتظامیہ کے پاس نہیں ہیں۔ لہٰذا وہ بے بس ہے۔ اور اس پر طرہ یہ کہ جرائم کی نوعیت میں بھی فرق آ چکا ہے چوری، لوٹ مار، ڈکیتی ،قتل وغارت تو روزمرہ کے جرائم ہیں اب ان میں جنسی جرائم بھی نمایاں ہو رہے ہیں۔ جرائم میں اضافے کے کئی اسباب ہیں معاشرے میں اقتصادی تغیر رونما ہو چکا ہے۔ قدیم زمانے کی وہ اخلاقی قدریں ختم ہو چکی ہیں۔ جن قدروں کے حوالے سے اخلاقیات کا رونا رویا جاتا ہے، ہم معاشرتی تبدیلیوں کو محسوس تو کرتے ہیں لیکن ان کا تجزیہ کرنے کو تیار نہیں۔ ہماری فکر کے ڈانڈے ماضی سے ملتے ہیں۔ حال کو دیکھنے اور پرکھنے کی جرات نہیں یہی وجہ ہے کہ آپ گفتگو اور تحریر میں مبہم اور غیر یقینی باتیں پائیں گے۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ معاشرے کی تنظیم نو کے بغیر کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا ان کی بات کوئی سننے کو تیار نہیں ہے کہ معاشرے کی تنظیم نو میں پرانے اور قدیم نظریات اور تصورات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور یہ کہ اب معاشرے میں اصلاحات کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ تنظیم نو کے ضمن میں بنیادی بات تو یہ ہے کہ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گاکہ معاشرتی زندگی کی بنیاد نظریات نہیں بلکہ ’’پیداواری رشتے‘‘ ہیں۔ معاشرے کی ہیئت اسکی پیداواری صلاحیت کے مطابق نہیں ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ69سالوں سے پیداوار کے ذرائع اور اسکی تقسیم میں بہت تبدیل آ چکی ہے لیکن ہم اس تبدیلی کو معاشرے کی پرانی ہیئت پر اثر انداز ہونے نہیں دیتے۔ ہم صنعت و تجارت اور زرعی پیداوار کے نئے طریقوں اور انداز کو بحیثیت حقائق نہیں لیتے۔ مثال کے طور پر ہم چور بازاری، رشوت اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف بہت کچھ کہتے ہیں۔ لیکن یہ سوچنے کی تکلیف گوارہ نہیں کرتے کہ چور بازاری اور ذخیرہ اندوزی سرمایہ پرست معیشت کے لازمی پہلو ہیں۔ اگر آپ سرمایہ دارانہ نظام معیشت برقرار رکھنے پر تیار ہیں تو پھر چور بازاری ،مہنگائی ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کی لعنت سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے۔ ہمارے ہاں ایسے سیاست دانو ں کی کمی نہیں۔ جو ان معاشرتی برائیوں کو اخلاقیات کی تعلیم سے ختم کرنا چاہتے ہیںیہ دراصل معاشرتی حقائق سے چشم پوشی کرنے کے مترادف ہے، وہ سرمایہ دار اور جاگیر داروں کے طبقوں کی حیثیت قائم رکھنا چاہتے ہیں کہ وہ خود سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ ذہنیت کے مالک ہیں۔ پنڈت جواہر لال نہرو جاگیرداری کے خلاف اپنے دلائل دیتے ہوئے اکثر کہا کرتے تھے کہ روس نے زار کے بعد یہ کام انتہائی مختصر عرصہ میں کر لیا تھا تو بھارت ایسا کیوں نہیں کرسکتا ؟
ہمارے ہاں کے قائدین اور رہنمائوں کیلئے سائنٹفک تنظیم نو کا نفاذ انتہائی تکلیف دہ بن گیا ہے۔ دراصل یہی وہ لوگ ہیں جو معاشرے کی تبدیلی کے خواہاں نہیں، یہی وہ صاحب اثر ہیں جو تنظیم نو کے لفظ سے بدکتے ہیں۔ یہ عام لوگوں کی بھلائی ہرگز نہیں چاہتے بلکہ یہ لوگ ذاتی ملکیت کو زندگی کا محور سمجھتے ہیں اور ملکیت کے زمرے ہی میں اخلاق آجاتا ہے اور اخلاق بھی ’’ذاتی ملکیت‘‘ بن گیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم معاشرتی زندگی کے اقتصادی اور مادی عوامل کو زیربحث لائیں۔ معاشرتی برائیوں اور ان کے اسباب کا سائنٹفک مطالعہ کریں اور حقیقت پسندانہ نگاہ سے معاشرتی زندگی کو دیکھیں جب تک میں آپ اور ہم سب ایسا نہیں کریں گے اس وقت تک معاشرےمیں انتشار موجود رہے گا۔
میرے خیال میں سائنٹفک تحقیق کا انحصار کسی مسئلے کے بارے میں ذاتی نقطہ نظر تجزیہ ،تجربے یا احساس پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ تحقیق، ریسرچ اور دستیاب مواد کو سائنسی نقطہ نظر سے زیر تجزیہ لانے کا عمل ہے، یہی وجہ ہے کہ میں نے یہ بتانا ضروری سمجھا ہےکہ پاکستان کی معاشی، سماجی، مذہبی ،سیاسی اور اقتصادی و معاشرتی زندگی میں تیزی سے پھیلتی ہوئی کرپشن سے پاکستان کا کوئی ادارہ بھی مبرا نہیں ہے۔
اب آیئے ایک حکایت سنئے ۔یاد رہے کہ اس حکایت کا میرے کالم سے ہرگز کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ ایک ایسے ہی انتشار زدہ معاشرے اور لہو لہان ملک کا ’’بادشاہ‘‘ جنگل میں شکار کھیلنے گیا اس نے ایک خوبصورت ہرنی کا نشانہ لیا جو خطا ہوگیا۔ بولا ’’بچ گئی‘‘ پھر ایک خرگوش کا نشانہ لیا وہ بھی خطا ہو گیا بولا ’’بچ گیا‘‘ اتنے میں پہاڑ سے ایک بھاری پتھر لڑھکا۔ قریب تھا کہ بادشاہ اس پتھر کے نیچے آ کر کچلا جاتا مگر وہ تیزی سے پہلو بچا گیا اتنے میں کہیں سے آواز آئی ’’بچ گیا‘‘
لوگ بچتے ہیں محبت کی پریشانی سے
میں نے سیکھا ہے محبت میں پریشاں ہونا

.
تازہ ترین