• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما لیکس، بیشتر افراد نے ایف بی آر کے جاری کردہ نوٹسز کا جواب نہیں دیا

اسلام آباد (انصار عباسی) وزیراعظم کے تین بچوں سمیت ایسے افراد کی اکثریت نے ایف بی آر کے رواں ماہ جاری کیے گئے نوٹسز کا جواب نہیں دیا جن کے نام پاناما پیپرز میں سامنے آئے تھے۔ اہم ترین سیاسی شخصیات میں پاکستان تحریک انصاف کے علیم خان وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے ایف بی آر کے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ وہ ایک آف شور کمپنی کے مالک ہیں۔ علیم خان نے ایف بی آر کو بتایا ہے کہ ان کی آف شور کمپنی کا ذکر ان کی جانب سے ایف بی آر کے پاس جمع کرائے گئے ویلتھ ٹیکس کے گوشواروں میں بھی کیا گیا ہے۔ ایف بی آر نے علیم خان کا کیس لاہور کے ٹیکس حکام کو مزید تحقیقات کیلئے بھجوا دیا ہے۔ تاہم دیگر افراد کی جانب سے ایف بی آر کو نوٹس کے معاملے میں سرد رد عمل کا سامنا رہا۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں ماہ کے شروع میں جاری کیے گئے تقریباً 400؍ نوٹسز کے جواب میں صرف 55؍ افراد نے جواب دیا ہے۔ ان 55؍ افراد میں سے 30؍ نے معاملے کو فی الحال روکنے (ایڈجورنمنٹ) کی درخواست کی ہے جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ ان کے نام کے ساتھ جن آف شور کمپنیوں کو جوڑا گیا ہے وہ پرانی ہیں اور اب ان کا وجود باقی نہیں۔ سیاسی دبائو اور تقریباً پانچ ماہ کے وقفے کے بعد، ایف بی آر نے تقریباً 400؍ ایسے افراد کو نوٹس جاری کیے جو آف شور کمپنیوں کے مالک تھے اور ان کے نام پاناما پیپرز میں سامنے آئے تھے۔ جن افراد کو نوٹس جاری کیا گیا تھا ان میں وزیراعظم نواز شریف کے تین بچے، حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز شامل ہیں۔ ایف بی آر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان تینوں میں سے کسی نے جواب نہیں دیا۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق یہ نوٹس انکم ٹیکس آرڈیننس مجریہ 2001ء کے مختلف سیکشنز کے تحت جاری کیے گئے تھے جن کا تعلق ایف بی آر کے ڈیٹابیس میں درج معلومات کی تصدیق سے ہے۔ ایف بی آر ان افراد سے آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے بارے میں ان کا موقف معلوم کرنا چاہتا تھا۔ ایف بی آر نے متعلقہ افراد سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کیلئے کہا تھا کہ آیا وہ ان آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں، ساتھ ہی دوسری معلومات بھی پوچھی گئی تھیں۔ ایف بی آر نوٹسز ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انٹیلی جنس اینڈ انوسٹی گیشن کی جانب سے جاری کیے گئے تھے۔ ایف بی آر کے تحت، اس مشق کے ذریعے ان اطلاعات کی تصدیق ہو سکے گی جو گزشتہ پانچ ماہ کے دوران میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس مجریہ 2001ء کے سیکشن 216؍ کے تحت انکم ٹیکس کمشنر تحریری نوٹس کے ذریعے کسی بھی شخص، چاہے وہ ٹیکس دینے کا مجاز ہو یا نہ ہو، سے کہہ سکتا ہے کہ وہ کمشنر یا کسی اور مجاز افسر کے روبرو اس آرڈیننس کے تحت واجب الادا ٹیکس کے متعلق معلومات فراہم کرے؛ یا نوٹس میں فراہم کردہ معلومات کے متعلق جرح کیلئے ملا قا ت کرے اور اس مقصد کیلئے کمشنر کسی بھی طرح کے اکائونٹس، دستاویزات یا پھر اس شخص کے کمپیوٹر میں محفوظ معلومات پیش کرنے کیلئے کہہ سکتا ہے۔
تازہ ترین