• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقبوضہ کشمیر میں خواتین سے زیادتی، ایک مجرم کو بھی سزا نہیں ملی،کشمیر کونسل کے زیراہتمام یورپی پارلیمنٹ میں کانفرنس

برسلز (حافظ انیب راشد) مقبوضہ کشمیر میں خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں ملوث کسی ایک بھی شخص کو سزا نہیں ملی۔ بلکہ الٹا یہ کہا گیا کہ یہ جھوٹ بول رہی ہیں، ان خیالات کا اظہار کشمیر کونسل یورپ کی طرف سے یورپین پارلیمنٹ میں حق خودارادیت کی تحریک کی جدوجہد میں خواتین کے کردار کے بارے میں منعقد ہونے والی تیسری سالانہ کانفرنس میں کیا گیا۔ زیر تسلط زندگی اور کشمیری خواتین کے نئے کردار کے زیر عنوان منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں اراکین یورپین پارلیمنٹ، مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے دانشور، ماہرین، انسانی حقوق کے نمائندے اور سماجی اور سیاسی زعما نے شرکت کی۔ جبکہ کانفرنس کی میزبانی یورپین پارلیمنٹ میں موجود فرینڈز آف کشمیر گروپ نے کی۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رکن یورپین پارلیمنٹ راجہ افضل خان نے کہا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ یہ ایک حل طلب مسئلہ اور نیوکلیئر فلیش پوائنٹ ہے اگر خطے میں جنگ چھڑتی ہے تو یہ صرف خطے کیلئے ہی نہیں بلکہ تمام دنیا کے لئے خطرناک ہوگی۔ انہوں نے اس کی مثال بیان کرتے ہوئے کہا کہ لیبیا اور شام کے مسائل کو ہم نے یہ سوچ کو نظر انداز کیا کہ ہم بہت دور ہیں لیکن ہم نے دیکھا کہ اس کے پیدا کردہ مسائل یورپ کے دروازوں پر آکھڑے ہوئے۔ کانفرنس کے شرکاء کا خیرمقدم کرتے ہوئے کشمیر کونسل کے چیئرمین علی رضا سید نے کہا کہ انڈیا ایک طرف کشمیریوں کے انسانی حقوق کو پامال کر رہا ہے بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ ان کی آواز نہ سنی جاسکے۔ اس کے لئے وہ اپنی ریاستی طاقت کے بے تحاشا اور بے پناہ استعمال کر رہا ہے۔ اس لئے ہماری کوشش ہے کہ آزادی اور ظلم سے نجات کی اس تحریک کو دنیا تک پہنچاتے رہیں۔ اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ اس کانفرنس میں انسانی حقوق کے کشمیری علمبردار خرم پرویز نے بھی شرکت کرنا تھی لیکن بھارتی حکام نے انہیں دہلی ائیرپورٹ پر روک کر جیل بھیج دیا ہے۔ سجاد کریم ایم ای پی نے کہا کہ دنیا پہلے کے مقابلے میں مسئلہ کشمیر کو اب زیادہ اہمیت دے رہی ہے۔ انہوں نے اس موقع پر اپنی جانب سے یورپین خارجہ امور کی سربراہ فیدریکا موغرینی کو لکھے گئے خط کے جواب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یورپین یونین کے لہجے میں تبدیلی آئی ہے اور انہوں نے مذاکراتی عمل میں کشمیریوں کی شمولیت پر بھی زور دیا ہے۔ ممبر پارلیمنٹ جیمز کارور نے کانفرنس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو سمجھنے کے حوالے سے اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ کا کشمیر پر گروپ اور کشمیر کونسل احسن طریقے سے اپنا کام انجام دے رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں فرینڈز آف کشمیر گروپ کی سربراہ انتھیا مرکنٹائر نے کانفرنس میں شریک خواتین کی ایک بڑی تعداد کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہر صورتحال میں خواتین کا ایک اہم کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں پارلیمنٹ میں انسانی حقوق اور تجارت کے موضوعات پر اکثر بات ہوتی ہے لیکن میرا سوال ہوتا ہے کہ تجارت کریں لیکن اس کی قیمت کیا ہوگی؟ رکن پارلیمنٹ امجد بشیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ انہیں بطور انسان اس ظالمانہ صورتحال کے جاری رہنے پر افسوس ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں امن آئے اور وہاں کے لوگ بھی اپنی زندگی احسن طریقے سے گزاریں۔ برطانیہ سے انسانی حقوق کی ماہر سعدیہ میر نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں خواتین کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ وہاں والدین اپنے بچوں کو اکیلے بھیجنے سے کتراتے ہیں اور اس ساری صورتحال کو مانیٹر کرنے کیلئے انڈیا کسی بھی بین الاقوامی تنظیم کو جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہالینڈ سے انسانی حقوق کی علمبردار ماریان لوکاس نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر سخت تشویش ظاہر کی۔ اس حوالے سے انہوں نے پیلٹ گن کے استعمال کا خاص طور پر ذکر کیا۔ انہوں نے خرم پرویز کی گرفتاری کو خاص طور پر اجاگر کیا جنہیں کالے قوانین کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہے۔ کانفرنس میں برطانیہ سے فرزانہ افضال، صبیحہ خان اور سمیرہ فرخ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس کانفرنس میں آزاد کشمیر کی پارلیمنٹ کے اپوزیشن لیڈر چوہدری یاسین، تحریک حق خودارادیت کے چیئرمین راجہ نجابت حسین، میر شاہجہان اور سبطین کاظمی نے بھی شرکت کی ۔
تازہ ترین