• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گاوں سے تعلق رکھنے والے چوہدری محمد سرور نے دکھی دل اور نم آنکھوں کے ساتھ گورنرپنجاب کے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے جو وجوہات بیان کیں وہ پاکستانی نظام کے منہ پر ایک طمانچہ ہیں۔ان کے یہ الفاظ کہ پاکستان میں سچ کا قحط ہے،لینڈ مافیا اورقبضہ گروپ گورنر سے زیادہ طاقتور ہیں،مقتول انصاف کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے اور قاتل دندناتے پھر رہے ہیں وہ آئینہ ہے جس میں اگر ہم اپنا چہرہ دیکھیں تو خود سے بھی گھن آئے۔چار دہائیوں سے انکے دکھ ،سکھ میں ساتھ دینے والی پروین سرور نے جب یہ کہا کہ سرور ایک اصول پرست انسان ہیں اور اصول پرستی کی پاکستان میں کوئی جگہ نہیں ہے تو ایسے لگا جیسے کسی نے گرم سیسہ کانوں میں انڈیل دیا ہو۔ چوہدری سروراور ان کی اہلیہ نے پاکستان بالخصوص پنجاب کی جو تصویر ساری دنیا کے سامنے پیش کر دی ہے،ہم گورنر کے آئینی عہدے کے تقاضوں پر مبنی لاکھ تاویلیں پیش کریں، اس کو دھندلا نہیں سکتے۔لیکن قحط میں بھی سچ بولنے والا اس بار کوئی گورا نہیں وہ پاکستانی ہے جس نے ملک کی خدمت کے لئےملکہ برطانیہ کی وفاداری کا اٹھایا ہوا حلف واپس لے لیا ،سعادت حسن منٹو کے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے سردار کی طرح یہ چوہدری سرور وہی ہے کہ جو برطانوی پارلیمنٹ کا رکن بنتے ہوئے بھی اپنے اصل کو نہ بھلا پایا اور حلف اٹھانے کے ایکٹ انیس سو اٹھتر میں دئیے گئے طریقہ کار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے قرآن مجید پر حلف لیا تھا۔ وہی پاکستانی ہے جس نے وطن کی لاج بچانے کیلئے لیبر پارٹی میں بھی اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا بھرپور دفاع کیا اور دو سال تک پارٹی سے دیس نکالے کے دوران اسی سچ کو آشکار کر کے چھوڑا تھا جس سچ کی تلاش میں اب وہ ڈیڑھ سال تک یہاں مارا مرا پھرتا رہا۔ پھر اسی لیبر پارٹی نے نہ صرف اس کی رکنیت بحال کی بلکہ پہلے مسلمان رکن پارلیمنٹ کا اعزاز حاصل کرنے کے لئے پلیٹ فارم بھی فراہم کیا۔ کیش اینڈ کیری سے محنت کا سفر شروع کرکے یونائیٹڈ ہول سیل اسکاٹ لینڈ اور وہاں سے پرطانوی پارلیمنٹ کی راہداریوں تک کامیابی کا سفر طے کرنے والے سیدھے سادھے دیہاتی کی رگوں میں دوڑنے والے پاکستانی خون نے جوش مارا تو مٹی کی محبت پرائے دیس سے لگائو پر غالب آ گئی،پنجاب کے گورنر کی صورت میں مٹی کی محبت کا قرض چکانے آشفتہ سری پر اتر آیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جہاں سے سچ کا قحط کہنے والے پر وہ وہ حقائق آشکار ہونا شروع ہوئے کہ جلد ہی اس کا دم گھٹنے لگا۔ واقفان حال جانتے ہیں کہ مروت میں مارا جانےو الا گورنری کا خواہاں نہ تھا بلکہ اپنے ہم وطنوں کے لئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ وفاق میں بروئے کار لانا چاہتا تھا۔ کچھ احسانات کے بدلے کا طوق اپنے گلے سے اتارنے کے بعد بعض قریبی دوستوں کے سامنے وہ برملا اعتراف بھی کر چکا کہ نہ چاہتے ہوئے اس نے دیرینہ لیگی کارکنوں کےحق پر ڈاکہ ڈالا تھا جس کا انہیں ذاتی دکھ ہے۔ اب آتے ہیں ان شکوے شکایتوں کی طرف جو اختلافات میں تبدیل ہوگئے اور بالآخر راستے الگ کرنے پر منتج ہوئے۔ برطانیہ میں فعال سیاسی کردار ادا کرنے والے چوہدری سرور کے پارٹی سربراہ اور وزیر اعظم رہنے والےگورڈن براون سے لےکر اہم تجارتی شخصیات کے ساتھ اس حد تک ذاتی مراسم ہیں کہ وہ صرف ان کی ایک درخواست پرخطیر رقم فلاحی کاموں کیلئے عطیہ کر دیتے ہیں۔ پہلا اختلاف رائَے اسی وقت سامنے آگیا تھا جب انہوں نے تعلیم اور صحت کے شعبے میں فلاحی خدمات کے لئے وفاق میں کام کرنے کی خواہش ظاہر کی تو انہیں کہا گیا کہ آپ اس کار خیر کو پنجاب میں سر انجام دیں۔وجہ نیت کا یہ فتور تھا کہ جو ترقی ہو، یا سرمایہ کاری ہو اس کا ثمر صرف پنجاب تک ہی محدود رہے اور اس کا سہرا دن رات عوام کی خدمت کا دعوی کرنے والے خادم حکمرانوں کو ہی ملے۔
یہاں تک تو سادہ لوح چوہدری کو دال میں کالا نظر نہ آیا لیکن پہلی بار ان کا ماتھا اس وقت ٹھنکا جب ان پر سرد مہری ظاہر کرنا شروع کی گئی لئےاور گلہ کیا گیا کہ فلاحی کاموں کے لئے وہ براہ راست امداد لینے کی بجائے پنجاب حکومت کے توسط سے لیں توزیادہ بہترہوگا۔ابھی یہ معاملات درمیان میں ہی تھے کہ انقلاب اور آزادی مارچ نے حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دیں،اس دوران گورنر پنجاب کی لندن میں طاہر القادری،عمران خان حتی کہ الطاف حسین سے مبینہ خفیہ ملاقاتوں کی اطلاعات پہنچنے لگیں تو ابتدائی طور پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا تاہم حکمرانوں کے نزدیک چوہدری سرور کی وفاداری مشکوک ہو گئی ۔ابھی یہ سب ہضم نہ ہو پایا تھا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے بھی گورنر پنجاب کو بغل میں بٹھا کروفاقی اور پنجاب حکومت کو تنقید کا ہدف بنانا یہاں چوہدری صاحب سوائے پہلو بدلنے کے کچھ نہ کر پائے۔ یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخربطورگورنر پنجاب نے مسلم لیگ ن کی حکومت کا دفاع کیوں نہ کیا۔اس کا جواب یہ ہے کہ چوہدری سرور کو گورنر کا عہدہ مسلم لیگ نہیں بلکہ شریف برادران سے تعلقات کی وجہ سے ملا تھا،اس کا اعتراف وہ آخری نیوز کانفرنس میں خود بھی کر چکے ہیں اس لئے انہوں نے خود کو کبھی لیگی گورنر سمجھا ہی نہ تھا۔وہ خود کو غیر جانب دار ثابت کرنے کے لئے مسلم لیگ ن سے وابستگی نہیں چاہتے تھے یہی وجہ ہے کہ گورنر ہاوس کے جو دروازے مرحوم سلمان تاثیر کے دور سے لیگی کارکنوں پر بند ہوئے تھے وہ ان کے ڈیڑھ سالہ دور میں بھی نہیں کھلے۔اب بات کرتے ہیں چوہدری سرور کی بطور گورنر بے بسی پر۔آئینی قدغنیں ایک طرف لیکن کیا گورنر کی اتنی حیثیت بھی نہیں اور یہ عہدہ اتنا نمائشی ہے کہ وہ اپنے بھائی اور ایک دوست کی زمین پر کیے جانے والے ناجائز قبضے کو بھی نہ چھڑا سکے۔ قبضہ واگزار کرنا تو درکنار گورنر ایف آئی آر تک کٹوانے کا مجاز نہ ہو اور آئی جی پنجاب انہیں صرف طفل تسلیاں دے کر بہلاتا رہے۔ صرف یہی نہیں انہوں نے وزیر اعظم اور وزیر اعلی پنجاب سے بھی درخواست کی لیکن صرف اتنا ہوا کہ شہباز شریف نے اپنے فرزند حمزہ شہباز کو گورنر پنجاب کے ساتھ بٹھا کر ان کے معاملات حل کرنے کی یقین دہانی کرادی لیکن بادشاہوں کے بیٹے بھی چونکہ شہزادے ہی ہوتے ہیںمیں اس بارے میںلیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ چوہدری صاحب کے ساتھ کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا کہ ....دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف....اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔یہاں یہ بھی بتا دوں کہ جو سیاسی شکاری اب چوہدری سرور کے کاندھے پربندوق رکھ کر شکار کرنا چاہتے ہیں انہیں مایوسی ہو گی کیوں کہ وہ اپنے بس کا اظہار بے بسی کا بھانڈا پھوڑنے تک ہی کر سکتے تھے اس سے زیادہ نہیں کیوں کہ جب مالی مفادات مشترکہ ہوں تو بہت سی مصلحتیں آڑے آ جاتی ہیں اور سچ بھی صرف ایک حد تک ہی بولا جا سکتا ہے۔آخر میں کچھ تذکرہ نئے گورنر پنجاب کی تقرری کا جس کی دوڑ میں ذکیہ شاہنواز،چوہدری جعفر اقبال،سعود مجید اور راجہ ظفر الحق نمایاں ہیں۔فی الحال یہ فیصلہ تو کر لیا گیا ہے کہ گورنر پنجاب کسی سیاسی شخصیت کو ہی تعینات کیا جائے گا لیکن ترجیح وہی ہے کہ ایسا شخص ہو جس کی منہ میں زبان نہ ہو۔ وزیر اعلی پنجاب سینئر صوبائی مشیر ذکیہ شاہنواز کے حمایتی ہیں تو وزیر اعظم اپنے دیرینہ دوست چوہدری منیر کے نامزد سعود مجید کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں۔راجہ ظفر الحق کو پنجاب میں بھیج کر سینیٹ کی نشست کے ساتھ چیئرمین شپ کو بھی بچانے پر غور جاری ہے ۔ادھر ہر مشکل وقت میں ثابت قدم رہنے والے سینیٹر چوہدری جعفراقبال، سے وفاداری کا صلہ چاہتے ہیں۔دیکھئے اس بار مقدم پارٹی سے وفاداری ٹھہرتی ہے یا ایک بار پھر مالی اور خاندانی مفادات کو ترجیح دینے کی روایت ہی برقرار رکھی جاتی ہے۔
تازہ ترین