• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کامیاب امیدواران کی ٹریننگ میں تاخیر نے بے چینی پیدا کر دی

باغ(نامہ نگار)آزاد کشمیر پبلک سروس کمیشن کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے مینجمنٹ گروپ کے لئے ٹسٹ انٹرویوز اور بعدازاں عدالت عالیہ میں امتحانات کے نتائج کو حکم امتناہی کے ذریعے روکے جانے کے بعد کامیاب امیدواران کو ٹریننگ پر بھجنے میں تاخیر نے ریاست بھر میں بے چینی کی کیفیت پیدا کر دی،میرٹ پر آنے والے امیدواران شدید ذہنی تنائو کا شکار ، اسسٹنٹ کمشنر اور اے ایس پیز کے لیے آخری بار پی ایس سی امتحانات 2007میں ہوئے تھے بعد ازاں 2010اور 2013میں ان آفیسران کی خالی آسامیوں کے لیے درخواستیں تو طلب کی گئیں مگر باوجو امتحان کا انعقاد نہ ہو سکا ، پانچ سال کے طویل انتظار کے بعد 2015میں ان امتحانات کو منعقد کیا گیا تو ایک امید پیدا ہوئی تھی کہ ریاست میں ان اہم عہدوں پر تعلیم یافتہ تجربہ کار نوجوان آفیسران میرٹ پر آئیں گے اور ٹریننگ کے بعد اپنی خدمات سر انجام دیں گے ، مگر ایک مخصوص مافیا جو میرٹ کے نظام کے خلاف ہے وہ ان امتحانات کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے ، عدالتی حکم امتناعی کے ذریعے ایک سال کے بعد تحریری امتحان کے نتائج اور بعد ازاں جولائی اگست 2016میں انٹر ویوز کے بعد کامیاب ہونے کے باوجود 2016میں بھی پیشہ ورانہ ٹریننگ سے محروم کر دیئے گئے ہیں ، ضلع نیلم کے ایک امید وار کیطرف سے حکم امتناعی حاصل کرنے کے بعد بعض عناصر پی ایس سی جیسے با وقار ادارے اور میرٹ پر آنے والوں کا میڈیا ٹرائل کر رہے ہیں جو کہ لمحہ فکریہ ہے ، ان خیالات کا اظہار باغ کے ممتاز سماجی کارکن سابق ڈائریکٹر جنرل امور حیوانات ڈاکٹر اشفاق احمد خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ پی ایس سی کیطرف سے پرچہ کی ری مارکننگ کو ڈیمپرنگ قرار دے کر جسطرح اس معاملے کو اچھالا جا رہا ہے وہ کسی بھی طرح قرین انصاف نہیں ، معاملہ جسطرح عدالت میں زیر کار ہے عدالت اس کا انصاف پر مبنی فیصلہ دے گی ، انہوں نے چیف جسٹس آزاد کشمیر ہائی کورٹ ، وزیر اعظم آزاد کشمیر ، صدر آزاد کشمیر اور چیف سیکرٹری سے مطالبہ کیا کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے جسطرح پانچ سال صبر آزما انتظار کے بعد امتحان میں شمولیت اختیار کی اور اہلیت کی بنیاد پر اپنے اپنے ضلعی کوٹہ کے مطابق کامیابی حاصل کی انہیں ٹریننگ سے محروم کرنا اور منفی پروپیگنڈہ کرنا زیادتی ہے اس کا نوٹس لیا جائے ، پورے کمیشن کو تحلیل کرنے کی باتیں تمام امتحانی نتائج کو کالعدم قرار دینے کی باتیں باعث تشویش ہیں نوٹس لیا جائے اگر اس کمیشن نے واقعی جانبدارانہ کردار ادا کیا ہے تو ان 400سے زائد مختلف آسامیوں پر منتخب ہو کر سروس کرنے والے مختلف محکمہ جات کے آفیسران کا مستقبل کیا ہو گا جن کو موجودہ کمیشن نے موضوع قرار دیا ، ایک فرد کی غلطی یا کلریکل غلطی کو پورے کمیشن کے سر تھونپنا نا مناسب ہے اور نہ ہی اس کی سزا کامیاب امید واروں کو دی جا سکتی ہے ، عدالت کے فیصلے کے منتظر ہیں عدالت اس پورے عمل میں جانبداری کے مرتکب فرد کو قرار واقعی سزا دے جسکی وجہ سے پی ایس سی جیسا با وقار ادارہ منتازعہ بنا تا کہ ریاست بھر کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کا اعتماد پی ایس سی پر بحال ہو سکے ۔
تازہ ترین