• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پلی بارگین کرنے والے افسروں کی تفصیلات طلب، نیب قانون کو توسیع دی توجیلیں خالی ہوجائیں گی، سپریم کورٹ

اسلام آباد(نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ میں پلی بارگینگ نیب قانون کے تحت رضاکارانہ رقوم کی واپسی کے خلاف از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ۔عدالت کا اٹارنی جنرل کی غیر حاضری پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگرنیب کے قانون کو وسعت دی جائے تو ملک کی جیلیں خالی ہو جائیں گی ۔انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ جس چور سے مال برآمد ہوا اسے شکریہ کے ساتھ چھوڑ دیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پلی بارگینگ رقوم کی واپسی کرنے والوں کو نوکریوں پر بحال کرنا مس کنڈکٹ ہے ۔ پلی بار گین از خود نوٹس کیس کی سماعت کے لیے اٹارنی جنرل کو طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 24 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی۔ عدالت نے نیب حکام کو ہدایت کی ہے کہ آئندہ سماعت سے قبل عدالت کو بتایا جائے کہ اب تک کتنے لوگوں کو پلی بار گین کے ذریعے کرپشن کے مقدمات سے رہا کیا گیا ہے۔عدالت نے نیب اور حکومت سے رضاکارانہ طور پر رقم جمع کرانے والوں کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس اعجاز الاحسن نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل سرکاری مصروفیات کی وجہ سے واشنگٹن میں ہیں اور دو سے تین روز میں واپس آ جائینگے، جس پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تمام اہم مقدمات میں اٹارنی جنرل دستیاب نہیں ہوتے ایسا کریں کہ اٹارنی جنرل کو مستقل ملک سے باہر ہی رکھیں، تا کہ قومی مفاد کے مقدمات کی سماعت نہ ہوسکے ،عدالت اس کیس کو روزانہ کی بنیاد پر چلانا چاہتی ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 15اکتوبر کے بعد تک اس کیس کی سماعت ملتوی کریں کیونکہ اس کیس میں نیب کے قانون کی خامیوں کو چیلنج کیا گیا ہے اسلئے اس کیس میں اٹارنی جنرل کی موجودگی ضرورت ہے ۔عدالت نے استفسار کیا ہے کہ کیا رضاکارانہ طور پر رقم واپس کرنیوالے کسی شخص کے خلاف کارروائی ہوئی ہے یا نہیں تو حکومتی وکیل کا کہنا تھا کہ اب تک رقم واپس کرنے والے کسی شخص کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی جس پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگرنیب کے قانون کو وسعت دی جائے تو ملک کی جیلیں خالی ہو جائیں گی ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو ایک بندہ پلی بار گین کرتا ہے اور اس کو کلین چٹ مل جاتی ہے اس دوران پراسیکیوٹر جنرل نیب نے عدالت کو بتایا کہ نیب آرڈیننس کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پچاس سال سے یہ معاملہ یونہی چل رہا ہے جس معاملے کو طول دینا ہو اس کے لیے کمیٹی بنا دی جاتی ہے ۔ بد قسمتی ہے کہ جس چور سے مال برآمد ہو اسے شکریہ کیساتھ چھوڑ دیں۔
تازہ ترین