• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خارجہ پالیسی کسی بھی ریاست کے لئے روح کی مانند ہوتی ہے۔ہر ملک کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے مضبوط اور آزادخارجہ پالیسی میسر آئے۔مگر بدقسمتی رہی کہ وطن عزیز کی خارجہ پالیسی کبھی بھی آزاد نہیں ہوئی اسی لئے مضبوطی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ہر دور میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کسی نہ کسی کی محتاج رہی۔56سال قبل فوجی آمر ایوب خان نے بھی اسی خارجہ پالیسی میں خامیوں کا تذکرہ Friend not Mastersمیں کیا اور آج بھی کمزور خارجہ پالیسی پر کھل کر بات کی جارہی ہے۔پوری دنیا کا اصول ہے کہ مہذب قومیں اپنی خارجہ پالیسی معاشی مفادات کو مدنظر رکھ کر بناتی ہیں۔مگر ہم نے ہمیشہ عسکری مفادات کوسامنے رکھ کرخارجہ پالیسی ترتیب دی۔مغرب میں یہ کہاوت عام ہے کہ "جنگیں بھی سیاستدان لڑتے ہیں"اس کا مطلب یہی ہے کہ میدان جنگ سے زیادہ پیچھے بیٹھ کر منصوبہ بندی اور بہترسفارت کاری سے ہی جنگیںجیتی جاتی ہیں۔ ایک منتخب سیاستدان سے زیادہ کامیاب سفارت کاری کوئی اور نہیں کرسکتا۔اگر آج ذوالفقار علی بھٹو شہید کو بہترین سفارت کار مانا جاتا ہے،اگر مغرب دنیا بھی تسلیم کرتی ہے کہ بھٹو نے ہنری کسنجر جیسے ماہر و زرخیز دماغ وزیر خارجہ کو بھی چت کردیا تھا تو ذوالفقار علی بھٹو کوئی اور نہیں تھا بلکہ ایک منتخب عوامی نمائندہ اور سیاستدان تھا۔فرانس کے ایک وزیراعظم Georges Clemenseauکو جدید فرانس میں مدبر اور قائد کا درجہ دیا جاتا ہے۔جارج کا مشہور مقولہ ہے کہ "war is too serious a business to be left to the generals " جاسکتا۔جارج پہلی جنگ عظیم کے دوران فرانس کا روح رواں تھا اور اس کے پورا سیاسی کیرئیر کامیابیوں سے بھرا پڑا ہے۔آج وہ وقت ہے جب ہمیں سوچنا چاہئےکہ وہ کونسی وجوہات ہیں ۔جن کی وجہ سے پاکستان کی خارجہ پالیسی سسکیاں لے رہی ہے۔
روایتی حریف بھارت نے سارک کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے۔بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان ،بھوٹان اور بنگلہ دیش بھی کانفرنس میں شرکت نہیں کریں گے۔اگر یہ رپورٹس درست ہیں تو پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت نے دنیا میں تو کیا ہے یا نہیں کیا مگر ہمیں خطے میں تنہا ضرور کردیا ہے۔سارک کانفرنس کی ناکامی سے بھارت پرکوئی اثر پڑے یا نہ پڑے مگر یہ پاکستان کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔ہمارے پاس ایک سنہری موقع تھا کامیاب سارک کانفرنس کے بعد پوری دنیا کے سامنے پرامن پاکستان کی تصویر پیش کرسکتے ۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جب درجن بھر ممالک کے سربراہ،وزیرخارجہ قیام کرتے تو دنیا کے سامنے ایک تاثر پیدا ہوتا کہ پاکستان کا اصل چہر ہ خودکش دھماکے یا دہشت گردی نہیں بلکہ آج ہمارے پاس ایک بدلا ہوا پاکستان ہے۔بدقسمتی ہے کہ حالیہ کشیدگی نے امن کا ایک اور موقع بھی ہم سے چھین لیا ہے۔
آج تمام صاحب رائے پاکستانی بیدار ہیں۔بھارت تو ہمارا روایتی دشمن ہے۔ہمارے لاکھوں آباؤ اجداد نے اس دشمنی میں خون کے نذرانے پیش کئے ہیں لیکن دیگر ہمسایہ ممالک سے ہمارے خراب تعلقات پر کیا جواز پیش کروں؟ کیا میں یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہوں کہ افغانستان،ایران اوربنگلہ دیش ہم سے دو ر کیوں ہوگئے ہیں۔جنوبی ایشیا میں طاقت کے دو محور ہیںایک پاکستان اور دوسرا بھارت۔ اگر بھارت ان ہمسائیوں کو اپنے ساتھ ملا کر ہمارے مفاد کے خلاف استعمال کرسکتا ہے تو پھر یہ سب پاکستان کیوں نہیں کرسکتا۔افغانستان سے آغاز کروں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ وہ قوم جس کی پوری ایک نسل پاکستان میں جوان ہوئی۔افغانی بھائیوں کو ہمیشہ وطن عزیز پاکستان نے اپنی آغوش میں پناہ دی۔مگر اس کے باوجود افغان فوجی کی گولی میرے پاکستان کے فوجی افسر کو شہید کردیتی ہے اور ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔کیا کبھی کسی پالیسی ساز نے غور کیا ہے کہ وجوہات کیا ہیں۔جب ہماری خواہش ہوگی کہ ہر کوئی ہمارے تابع رہے تو پھر نتائج یہی ہونگے۔ ایران وہ اسلامی ملک ہے جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔آج وہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ مل کر ہندوستان کی فوجوں کو چابہار تک لے آیا ہے مگر کوئی غور کرنے والا نہیں ہے۔ایرانی سربراہان مملکت آتے ہیں اور ہم ایک معاملے پر اپنا ہاتھ اوپر رکھنے کے لئے ویڈیو کلپ چلادیتے ہیں۔بنگلہ دیش سے متعلق زیادہ کچھ نہیں کہنا چاہتا مگر اتنا ضرور یاد رکھیں کہ وہ بھی ہمارا مسلمان بھائی ہے۔اگر بھارت اس کے مفادا ت کو پروان چڑھا کر ہمارے خلاف کرسکتا ہے تو پچھلے 45سالوں میں ہم بھی ایسا کرسکتے تھے۔جب قوموں کی خارجہ پالیسی معیشت سے زیادہ عسکری مفادات کی محتاج ہوجائے تو پھر وہی ہوتا ہے جو آج سب کے سامنے ہیں۔یہ ہر گز نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے ہمسائے ممالک کے کردار درست رہے ہیں ،یا پھر کبھی انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا ۔لیکن ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ ہمسائے کبھی تبدیل نہیں ہوسکتے۔جو ممالک ہمیں میسر آئے ہیں ہمیں انہی سے معاملات آگے چلانے ہیں۔ اگر اس بات سے سب متفق ہیں تو پھر ہمیں برداشت سے کام لینا چاہئے۔
گزشتہ رات دنیا کے ایک طاقتور ملک کے سفیر سے نشست رہی۔کھانے پر دیگر سفارت کار بھی موجود تھے۔ سفیر موصوف کہنے لگے کہ پاکستان میں خارجہ پالیسی سیاست دان چلارہے ہیں یا پھر اسٹیبلشمنٹ۔ میں کافی دیر خاموش رہا۔سفیر مسکرائے اور کہنے لگے کہ جس طرح آپکو نہیں پتہ اسی طرح دنیا کو بھی نہیں پتہ کہ انہوں نے بات کس سے کرنی ہے۔کوئی ملک اسلام آباد سے بات کررہا ہے تو کوئی راولپنڈی سے۔ قارئین بہتر جانتے ہیں کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کہاں تیار ہوتی ہے۔وزیراعظم کا خارجہ پالیسی سے باخبر ہونے کا ایک واقعہ سن لیں۔فروری 1999میں جب بھارتی وزیراعظم واجپائی لاہور میں وزیراعظم نوازشریف کے ہمراہ کھانے پر موجود تھے تو انہوں نے اچانک نوازشریف سے پوچھا کہ کیا آپ نے کارگل پر فوجیں بھیجی ہیں اور حملہ کرنے کا ارادہ ہے۔وزیراعظم نوازشریف حیران ہوکر بولے کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے۔جب ملک کے وزیراعظم کو ہی کسی بات کا علم نہ ہو تو پھر وزیرخارجہ یا سیکرٹری خارجہ کس کھیت کی مولی ہیں۔سابق فوجی حکمران ایوب خان نے اپنی کتاب ـ"فرینڈز ناٹ ماسٹرز"میں اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا اور خارجہ پالیسی کو بہتر کرنے کا اشارہ دیا۔مگر بدقسمتی رہی ہے کہ ہم کبھی بھی اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھتے۔بالا حقائق تلخ ضرور ہیں مگر سچ پر مبنی ہیں۔ہر محب وطن پاکستانی انہیں دل سے تسلیم کرتا ہے۔ہم سب کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے کہ روایتی دشمن بھارت اپنی چالوں سے ہمیں تنہا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔سیاسی حکومت،قومی اداروں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھنے کی ضرور ت ہے اور از سر نو خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔آپ خارجہ پالیسی سمیت تمام داخلی و خارجی معاملات وزیراعظم پاکستان کے حوالے کریں تاکہ عوام عام انتخابات میں سیاسی قوتوں کا کڑا احتساب کرسکیں۔جب عمومی تاثر ہوتا ہے کہ خارجہ پالیسی،دفاع اور داخلہ کے معاملات وزیراعظم کی دسترس سے باہر ہیں تو اس کا سب سے زیادہ نقصان آپکو ہوتا ہے۔عین ممکن ہے یہ تاثر درست نہ ہو مگر چونکہ ماضی کے ادوار میں خارجہ پالیسی پر اسٹیبلشمنٹ کا گہرا اثر رہا ہے ۔اس لئے حالیہ ادوار میں بھی یہ اثر نہ ہی زائل ہوا ہے اور نہ اسے زائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ قومی اداروں کے بھی بہتر مفاد میں نہیں کہ کوئی خارجہ پالیسی کی ناکامی پر انگلی اٹھائے۔براہ کرم ہر معاملے میں ڈرائیونگ سیٹ پر وزیراعظم کو بٹھائیں اور پھر نتائج کا انتظار کریں ۔اگر نتائج اچھے ہوئے تو سب کے سامنے آجائیں گے اوراگر پھر بھی ناکامی ہوئی تو عوام عام انتخابات میں احتساب کرلیں گے مگر خدارا منتخب وزیراعظم کو کام کرنے دیں اور ڈلیور کرنے کا پورا پورا موقع دیں۔


.
تازہ ترین