• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عمران خان ہی نہیں بلکہ کسی بھی سیاست دان کی خامیوں پر لکھنا مجھےکبھی اچھا نہیں لگتا کیونکہ ہمارے ہاں سیاست دانوں کے کھاتے میں بہت سے غلط کام اپنے پلے سے بھی ڈالنے والے کثیر تعداد میں موجود ہیں اور پہلے دن سے اس کا مقصد لوگوں کو انتخابی سیاست سے متنفر کرنا اور مارشل لائوں کے لئے راہ ہموار کرنا رہا ہے۔ عمران خان سیاست دان ہوتے ہوئے بھی خود سیاست دانوں کی کردار کشی میں لگے رہتے ہیں۔ ان سیاست دانوں کی کردار کشی جو ان کی نہیں کسی دوسری سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ اقتدار میں آنے کے لئے تمام ریاستی اداروں پر تہمتیں لگاتے ہیں تاکہ انہیں ڈرادھمکا کر ان سے اپنی مرضی کے فیصلے لئے جاسکیں۔ وہ کہتے ہیں عدالتیں ہمیں انصاف نہیں دیتیں، اس سے ان کی مراد ہوتی ہے کہ ان کے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کو عدالتیں تسلیم نہیں کرتیں اور یہ تحریک انصاف کے ساتھ ناانصافی ہے۔ آئین، عدلیہ، پارلیمنٹ اور دیگر جمہوری علامتیں بھی ان کے نشانے کی زد پر نہیں بلکہ معاشرے میں اپنی دیانت اور امانت کے حوالے سے نہایت عزت و احترام سے دیکھے جانے والے افراد کی وہ آئے دن توہین کرتے ہیں، ایساکرتے وقت وہ سیاست دان لگتے ہی نہیں بلکہ، جو مثال میں دینا چاہتا تھا وہ نہیں دے رہا، جو لگتے ہیں وہ آپ خود تصور کرلیں۔ گزشتہ روز انہوں نے ایک بار پھر ایف بی آر کے چیئرمین نثار محمد خان پر خاصے بے سروپا الزامات لگائے جن کے جواب میں خان صاحب نے کہا کہ وہ اخلاق سے گری ہوئی ان باتوں کا جواب دینا بھی پسند نہیں کرتے۔ خان صاحب ہماری بیوروکریسی کے ان افراد میںسے ہیں جن کی ساری سروس بے داغ ہے، جب کسی ایسے شخص پر کیچڑ اچھالا جائے تو اس صدمے کا اندازہ لگانا ممکن ہی نہیں، جو اسے ایسی باتوں سے پہنچ سکتا ہے، مگر خان صاحب کا یہ روز کا معمول ہے اور یوں پاکستانی عوام جو شروع میں ان کے قریب ہوتے تھے۔ اب ان سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔
عمران خان کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی کہ جو کچھ انہوں نے حاصل کیا تھا وہ آہستہ آہستہ خود اسے تباہ کرتے جارہے ہیں، حالیہ تمام ضمنی انتخابات میں وہ ان تمام نشستوں سے ہار گئے ہیں جو تحریک انصاف کی تھیں، 2013ء کے انتخابات پر انہوں نے دھاندلی کے الزام لگائے، وہ سب عوام نےواش کردیئے اور اس کے بعد سے اب تک آزاد کشمیر سے لے کر کنٹونمنٹ بورڈ اور ضمنی انتخابات میں بھی عوام نے ہر جگہ مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دے کر عمران خان کو آئینہ دکھا دیا ہے۔ ہر نئی شکست پر وہ سڑکوں پر آجاتے ہیں اور اس سے انہیں سوائے مایوسی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پے در پے شکستوں اور ناکامیوں کے نتیجے میں خان صاحب پر ان دنوں ایک جنونی سی کیفیت طاری ہوگئی ہے، جو اکا دکا کالم نویس ان سے اختلاف کرتا ہے وہ اس کی کردار کشی پر بھی اتر آتے ہیں حالانکہ میڈیا میں جتنی کوریج خان صاحب کو ملتی ہے اور ان کے ارشادات اور الزامات کو جس شدومد سے پیش کیا جاتاہے اور پھر اس کے بعد ان کے لئے لکھنے اور بولنے والوں کی فوج حرکت میں آتی ہے، وہ سب کچھ خان صاحب کو حق و انصاف پر مبنی نظر آتا ہے، مگر اپنے خلاف اٹھنے والی ایک آواز بھی ان کی راتوں کی نیند اڑا دیتی ہے، خان صاحب حوصلہ پکڑیں، اگر آپ کے ہاتھ میں وزارت عظمیٰ کی لکیر نہیں ہے تو اس کا شکوہ کاتب تقدیر سے کریں کیوں اس کا بدلہ ترقی کی راہ پر گامزن پاکستان سے لیتے ہیں اور یہاں انتشار کی فضا پیدا کر کے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اقتدار سے محرومی کا صدمہ برداشت کرنے کی توفیق اور اس حوالے سے صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
آخر میں ظفر اقبال کی ایک خوبصورت غزل؎
چاند تاروں کا حوالہ بھی کہیں ہے شاید
آسماں لگتا ہے لیکن یہ زمیں ہے شاید
دل تو خالی تھا اسی طرح بڑی مدت سے
اس کے ہمسائے میں اب کوئی مکیں ہے شاید
دیکھنا چاہئے اطراف میں اپنے بھی کہیں
میں جسے ڈھونڈنے نکلا ہوں یہیں ہے شاید
کس کو معلوم ہے کیا اس کا ارادہ ہے کہ جو
دور ہوتا ہوا کچھ اور قریں ہے شاید
اس اندھیرے کو یہ کرتا ہوا اتنا روشن
ٹوٹ کر گرتا ہوا ماہ مبیں ہے شاید
زندگی جیسے کوئی مشق سی لگتی ہے مجھے
اصل جو کام ہے وہ بعدازیں ہے شاید
سجدہ بھی لوح مناجات میں ایسا ہوا گم
نقش پا جس کو سمجھتا ہوں جبیں ہے شاید
میں تو ہو ہی نہیں سکتا ہوں تری دنیا میں
حد امکاں میں یہاں تو بھی نہیں ہے شاید
ظفرؔ اقبال کا کیا نام و نشاں پوچھتے ہو
جہاں اس کو نہیں ہونا تھا وہیں ہے شاید



.
تازہ ترین