• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صوفیا اور اولیا کائنات میں زندگی کے روشن اور مثبت پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی زندگیوں کو مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ وہ خدمتِ خلق کے رستے پر چلتے ہوئے مسلسل ریاضت سے اپنے نفس کی آلائشوں کا خاتمہ کر کے تن من کے درمیان حائل رکاوٹوں کا اس طرح قلع قمع کرتے ہیں کہ وجود کی وحدت انہیں ازلی سچائیوں سے ہمکنار کرتے ہوئے ان کے دِل کو ایسا آئینہ بنا دیتی ہے جس سے حسنِ مطلق کے جلوئوں کی کرنیں خیر، حُسن اور محبت کی مہریں بن کر دلوں پر ثبت ہوتی ہیں تو وہ بھی اسی راستے کے مسافر بننے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ظاہر و باطن کا فرق اور فاصلہ عجیب ہے۔ کبھی صدیوں طے نہیں ہوتا اور کبھی ایک نگاہ پار لگا دیتی ہے۔ صوفیاء باطن کو ترجیح ضرور دیتے ہیں مگر وہ ظاہر سے مکمل کنارہ کشی نہیں کرتے بلکہ فطرت کے حُسن اور مخلوقات سے ان کا ہر لمحہ رابطہ بحال رہتا ہے لیکن باطن کی دنیا زیادہ وسیع، بامعنی اور گمبھیر ہے۔ اس میں علوم کے سمندر ہیں، حکمت کے پہاڑ ہیں، معرفت کی کانیں اور زندگی کے اسرار پوشیدہ ہیں۔ اس لئے صوفی پہلی منزل پر ہی ظاہر کی خوبصورتی کو خیالوں میں اُجال کر من کی طرف راغب ہوتا ہے اور ظاہر و باطن کے تفاوت کو کم کر کے ان کی یکجائی سے زندگی اور کائنات کی حقیقتوں سے روشناس ہوتا چلا جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ کثافت کم ہوتی جاتی ہے اور پھر ایک دن وہ سراپا لطافت بن کر خیر سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر روح خاک پر مکمل غلبہ نہیں حاصل کرتی بلکہ خاک میں بھی نورانی اوصاف شامل کر کے اسے ہمراہ کر لیتی ہے تو سماعتوں میں ایک ہی صدا گونجنے لگتی ہے۔ رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی۔ رانجھا ہونے کا عمل طویل مسافت کا طلبگار ہے مگر منزل پر پہنچ کر ایک نئے جیون کی شروعات کا احساس دل سے پرانے خیالات کو نیست و نابود کر دیتا ہے اس لئے صوفی اور ولی کسی بھی سرزمین سے تعلق رکھتا ہو اس کی نظر کا نور اور دِل کا آئینہ ایک سا ہوتا ہے کیوں کہ ریاضت کے راستے اور منزل ایک ہے۔ ان کے اعمال، نظریات اور مقاصد میں بھی گہری مشابہت موجود ہوتی ہے۔ اسی طرح صوفی شاعر کسی بھی زبان یا خطے کا ہو اس کے کلام کی روح اور پیغام مشترک ہوتا ہے۔ جب ذرائع ابلاغ میں بے شمار رکاوٹیں حائل تھیں، آواز اور صورت نے لہروں پر سفر کا آغاز نہیں کیا تھا، تب کی شاعری ملاحظہ کریں۔ کھڑی شریف کے میاں محمد بخشؒ، روہی کے خواجہ غلام فریدؒ، سندھ کے شاہ عبد اللطیف بھٹائی ؒ، جھنگ کے سلطان باہوؒ، کے پی کے کے رحمان بابا اور بلوچستان کے مستیں توکلی کی زبان، استعارے، لہجہ، اندازِ بیان مختلف مگر حرفوں کے خول کے اندر ایک ہی نور کے بلب روشن ہیں۔ اس فکری ہم آہنگی کا سبب روحِ کائنات سے سب کا ہمکنار ہو کر وحدت میں ڈھل جانا ہے۔
میاں محمد بخشؒ نے 33 برس کی عمر میں اپنی شہرہ آفاق داستان سفر العشق لکھی جو قصے کے باکمال ہیرو سیف الملوک کے نام سے مشہور ہوئی۔ وارث شاہؒ نے بھی تقریباً اسی عمر میں لازوال داستان ہیر کو رقم کیا۔ دونوں کے دل عشق کی آگ میں جل کر کھوٹ سے مبرا ہو چکے تھے۔ دونوں کی محبت سچی اور حقیقی مگر دونوں نے اپنے جذبات کا اظہار براہِ راست کرنے کی بجائے پہلے سے موجود کہانیوں یا قصوں کا سہارا لیا۔ سیف الملوک اور ہیر وارث شاہ ایک قالب اور ڈھانچے کی طرح تھے جن کے اندر کوئی اور حقیقت پوشیدہ تھی مگر ماتھے پر لیبل مختلف تھا۔ وارث شاہؒ کے شعر ملاحظہ کیجئے:
یاراں اساں نوں آن سوال کیتا عشق ہیر دا نواں بنائیے جی
ایس پریم دی جھوک دا سبھ قصّہ ڈھب سوہنے نال سنائیے جی
نال عجب بہار دے شعر کر کے رانجھے ہیر دا میل ملائیے جی
یاراں نال مجالساں وچ بہہ کے مزا ہیر دے عشق دا پائیے جی
لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا تو ممکن ہے کہ بعض اوقات محبت سے محروم لوگ دوسروں کی کہانیوں کا تذکرہ کر کے اپنا کتھارسز کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ دوسروں کے قصے بیان کرتے ہوئے وصال کے سرور آگیں لمحوں کا نشہ اور وچھوڑے کی کالی راتوں کا درد لفظوں میں معنی کی طرح بس جائے۔ سُکھ اور دُکھ جو دل پر گزرتا ہے اس کا احوال لفظ بیان نہیں کرتے بلکہ روح انہیں خوشی اور غمی کا لبادہ پہنا کر ورق پر رقم کرتی ہے۔ جب تک انسان کے اپنے جذبات و احساسات شامل نہ ہوں لفظ خالی ٹین کی طرح کھنکھناتے ضرور ہیں مگر ان سے آشنائی کا سفر لاحاصل رہتا ہے۔ اسی طرح وجود بھی کھوکھلا بُت بن کر رہ جاتا ہے اگر اُس میں محبت کے دریا نہ بہیں اور آنکھوں سے چاہت کے چشمے نہ پھوٹیں، سو ہر کہانی میں لکھاری کی آپ بیتی کا کوئی عکس ضرور موجود ہوتا ہے۔ اسی لئے مولانا روم نے کہا تھا:
خوش ترآں باشد کہ سرِ دلبراں
گُفتہ آید در حدیثِ دیگراں
بالکل اسی خیال کو میاں محمد بخشؒ نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے:
درد لگے تاں ہائے نکلے کوئی کوئی رہندا جُڑ کے
دلبر اپنے دی گل کیجے اوراں نوں منہ دھر کے
انسان لاکھ جتن کر لے اپنے منہ زور جذبات کے دریا کا رُخ موڑ کر اپنی کہانی کو کسی اور زمین میں کاشت کر کے نئی فصل بنانے کی کاوش کر لے، سچ کسی نہ کسی کھڑکی سے جھانک کر اصل حقیقت کا پردہ فاش کر دیتا ہے۔ جس طرح روشنی کی کرنوں کو قید نہیں کیا جا سکتا، جس طرح ہوائوں کو نہیں باندھا جا سکتا، جس طرح خوشبو کو محصور نہیں کیا جا سکتا جذبوں کی آنچ بھی محسوس ہوئے بنا نہیں رہ سکتی۔ انسان خاموش رہتا ہے لیکن لفظ اس کے دِل کا حال عیاں کر کے اُسے حیران کر دیتے ہیں۔ قلم لاشعور کا ہاتھ تھامے ایسی تصویریں بنا دیتا ہے جسے لکھاری کئی پردوں میں چھپا کر بھول چکا ہوتا ہے۔ قصہ سیف الملوک اور ہیر وارث شاہؒ بھی بظاہر دوسروں کی کہانیوں پر مشتمل قصے تھے لیکن ان میں سانس لینے والی روح اور لفظوں کے سینوں میں دھڑکنے والے دل میاں محمد بخشؒ اور وارث شاہؒ کے تھے کیوں کہ بقول میاں محمد بخشؒ عشق کے بغیر درد اور درد کے بغیر تاثیر ممکن نہیں۔تو اصل محبت اور عشق مجاز سے شروع ہوتا ہے جو دوطرف ہے، جس میں مکالمہ ہے، ایک طالب اور ایک مطلوب نہیں بلکہ دونوں طلب اور مطلوبی کے خواہشمند ہیں۔ کسی کو یکطرفہ بندگی کا دعویٰ نہیں بلکہ دونوں چاہنے اور چاہے جانے کی آرزو رکھتے ہیں۔ یہ دو وجود من سے ایک ہوں تو روحانی بالیدگی کی طرف سفر آغاز کرتے ہیں جہاں دائمی سرور اور سرشاری ہے، جہاں صرف لطافت ہے، کوئی جذبہ نہیں، سب منفی قوتیں فنا ہو جاتی ہیں، صرف دائمی محبت باقی رہ جاتی ہے۔ اس لئے دلبر کی بات کرنا بھی کارِ ثواب ہے اور محبت معجزہ ہے۔ خدا کرے یہ معجزہ ہر دل پر اُترے۔


.
تازہ ترین