• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی میں ہاکس بے کے ساحل پر اس وقت گیارہ سو میگاواٹ کے دو نئے ایٹمی بجلی گھر تعمیر کئے جا رہے ہیںاور مستقبل میں دو مزید بجلی گھروں کا منصوبہ ہے۔ اس اندیشے کا بارہا اظہار کیا جا چکا ہے کہ ان میں کسی نا گہانی حادثے کی صورت میں کراچی کے شہریوں کو شدید خطرات لاحق ہوںگے۔دنیا بھرنے اب یہ اصول تسلیم کر لیاہے کہ ایٹمی بجلی گھر آبادیوں سے دور بنائے جائیں اور اگر قرب و جوار میں آبادی ہو بھی تو احتیاطاً ان کے ہنگامی طور پر انخلا کا منصوبہ بھی بنایا جائے، اور اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کی تصدیق بھی کر لی جائے، تاکہ انسانی جان کو مہلک تابکاری سے محفوظ رکھا جا سکے۔
جاپان کا علاقہ فوکوشیما ہمارے ذہنوں پہ نقش ہے 2011میں وہاں نصب چار ایٹمی بجلی گھرزلزلے اور سونامی کا شکار ہوئے، جن سے بہت بڑی مقدار میں تابکاری خارج ہو کر فضا میں پھیل گئی۔ ہمیں یاد ہے کہ اس کے باوجود اطراف میں رہائشی باشندے محفوظ رہے، اس لئے کہ جاپان کی حکومت نے نہایت منظم طریقے سے تیس کلومیٹر تک آباد باشندوں سے علاقہ خالی کرواکے انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ پچھلے پانچ سال سے وہ محفوظ علاقوں میں پناہ گزین ہیں اور مزید پچیس سال تک اپنے گھروں، کھیتوں، کھلیانوں، باغوں، دکانوں، کارخانوں وغیرہ میں واپس نہیں جا سکیں گے۔ جاپان کی حکومت نے انخلاکا سامنا کرنے والوں کو نئی رہائش وخوراک دی، روزگار ونئے کاروبار دیئے، بچوں کی تعلیم کا بندوبست کیا، وغیرہ وغیرہ۔یہی منظم انخلا کا مطلب ہوتا ہے۔
بین الاقوامی قوانین کے علاوہ ہمارے اپنے ملک کے قوانین بھی یہ تاکید کرتے ہیںکہ جب ایٹمی بجلی گھر تعمیر کئے جائیں توقریبی آبادی کے انخلا کامنصوبہ بھی بنایا جائے، اور یہ منصوبہ شہری انتظامیہ کے ساتھ مل کر بنایا جائے اور اس کے قابل عمل ہونے کی عملی تصدیق بھی کی جائے۔ کراچی کے نئے ایٹمی بجلی گھر بناتے وقت پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنایا، اور نہ ہی ان بجلی گھروں کی اجازت دیتے ہوئے پاکستان نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی نے اس کوتاہی کو قابل گرفت سمجھا۔ چنانچہ کراچی کی آبادی کے انخلاکا کوئی منصوبہ وجود ہی نہیں رکھتا، قابل عمل ہوناتو دور کی بات ہے۔
کراچی کے نئے ایٹمی بجلی گھر اگر کبھی ایسے حادثے کا شکار ہوئے جس سے ان کی تابکاری فضا میں خارج ہوئی، چاہے اس کا امکان کتنا ہی کم کیوں نہ ہو، تو کراچی کے باشندے اس کی زد میں ہوںگے۔ سمندری ہوائیں بیشتر اوقات ہاکس بے سے کراچی شہر کی طرف چلتی ہیں۔ ایسے حادثے کی صورت میں تابکاری کا بادل کراچی شہر کا رخ کرے گا، اور تقریباً گھنٹے بھر میںلیاری، سعیدآباد، بلدیہ، اورنگی ٹاؤن پہنچ جائے گا، اور گھنٹوںتک گزرتے گزرتے پورے کراچی شہرپر تابکاری نچھاور کرتا چلا جائے گا۔
کراچی کے باشندوں کو مہلک تابکاری سے بچانے کے لئے انہیں ہنگامی طور پہ کہیں دور محفوظ مقام پر منتقل کرناضروری ہوگا۔ چونکہ انخلا کی پہلے سے منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے، اس لئے صرف یہی کیا جا سکے گاکہ فوری طور پہ ہنگامی حالت کا اعلان کر کے لوگوں کو کراچی سے باہر نکلنے کی ہدایت نشر کی جائے، اورامید کی جائے کہ لوگ صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اس پر فوراً عمل کریں گے۔
کراچی سے باہر نکلنے کے صرف چارراستے ہیں۔ قومی شاہراہ N5، سپر ہائی وے M9، آرسی ڈی ہائی وےN25 اور ناردرن بائی پاس M10۔ آخرالذکر دونوں سڑکیں یا تو جائے حادثہ کی طرف لے جاتی ہیں، یا بیابان کی جانب۔ چنانچہ تمام لوگ قومی شاہراہ یا سپر ہائی وے کا رخ کریں گے۔ اب یہ تصور کرنا مشکل نہیں کہ اگرپچاس ساٹھ لاکھ لوگ لاکھوںگاڑیوں میں ایک ساتھ صرف دو سڑکوں سے شہر سے باہر نکلنے کی کوشش کریں گے تو کیسا ہولناک حشر بپا ہوگا۔قیامت کی افراتفری اور انتشار ہوگا۔ کراچی کی توشہرت ہے کہ یہاں ذرا سا طوفان آجائے، یا بڑی شاہراہ پر ٹریفک کا حادثہ ہو جائے تو شدید ٹریفک جام ہو جاتا ہے، اورعوام میں نفسا نفسی کی ہیجانی کیفیت صورتحال کومزید ابترکر دیتی ہے۔چنانچہ پیشگی منصوبے کے بغیر انخلا کی صورت میں مکمل ٹریفک جام ہو جائے گا، جس کے باعث سب پھنس کر رہ جائیں گے، اور تابکاری کی بارش کا شکار ہوجائیں گے۔
اس ضمن میںفوکوشیما کے علاوہ ایک اور واقعہ بھی ہمارے لئے دلچسپی کا باعث ہوگا۔ اس کا تعلق امریکی ریاست نیویارک کے قصبے شورہم کے ایٹمی بجلی گھر سے ہے۔ یہ دنیا کا واحد ایٹمی بجلی گھر تھا جو مکمل تعمیر اور بجلی پیدا کرنے کے لئے تیار ہو جانے کے باوجود بغیر ایک یونٹ بجلی پیدا کئے مسمار کر دیا گیا، حالانکہ اس کی تیاری پر ساڑھے پانچ ارب ڈالر لگے تھے، اور اسے مسمار کرنے پر 19کروڑ ڈالر مزید صرف کرنے پڑے۔
وجہ کیا تھی؟ وجہ یہ تھی کہ مقامی آ بادی نے اصرار کیا کہ ہنگامی انخلاکا تسلی بخش منصوبہ پہلے بننا ضروری ہے۔ چونکہ بجلی گھر بنانے والی کمپنی ہنگامی انخلا کا تسلی بخش پلان بنانے میں ناکام ہو گئی تھی، اس لئے بجلی گھر ہی اکھاڑ دیا گیا۔اس پرعوامی اصرار اس لئے بھی بڑھا کہ شورہم بجلی گھر کی تعمیر کے دوران ہی 1979میں امریکہ کا پہلا ایٹمی بجلی گھر کا حادثہ ’’تھری مائل آئی لینڈ‘‘ میں پیش آیا جس میں ایٹمی عمل کے بے قابو ہونے پر ایندھن پگھل گیااور تابکاری باہر فضا میں پھیل گئی۔ اطراف کی بستیوں کو جب خالی کرایا گیا توبڑی افراتفری مچی اور سراسیمگی پھیلی۔ اس پر امریکہ کے نیوکلیئر ریگولیٹری کمیشن (NRC)نے قواعد وضع کئے کہ جب بھی نیا ری ایکٹر لگایا جائے، نزدیکی آبادی کے ہنگامی انخلا کا منصوبہ بھی تیار کیا جائے اور اس کی منظوری مقامی حکام سے لی جائے۔ تب سے یہ قاعدہ ایک مسلمہ اصول اور بین الاقوامی قوانین کا حصہ بن چکا ہے۔
اس حادثے کے باعث شورہم کے ایٹمی پلانٹ کے خلاف عوامی رائے میں مزید تیزی آ گئی۔ تاہم بجلی گھر بنتا رہا اور 1984میں مکمل بھی ہو گیا۔مگر اس سے بجلی پیدا کرنے کے لئے NRC کی اجازت ضروری تھی، اور قریبی آبادی کے ہنگامی انخلاء کا منصوبہ متنازع بن گیا۔ کمپنی کے تیار کردہ منصوبے کو نہ ہی کاؤنٹی کی کونسل نے منظور کیا اور نہ ہی ریاست نیو یارک نے۔ انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس علاقے کی آبادی کا محفوظ انخلا ممکن ہی نہیں۔
اس دوران اپریل 1986 میں یورپ میں چرنوبل کے ایٹمی بجلی گھر کا خوفناک حادثہ پیش آیا جس میںری ایکٹر بے قابو ہو کر پھٹ گیا اور بجلی گھر کی عمارت کی چھت دھماکے سے اڑ گئی۔ اس سے ری ایکٹر کی تابکاری پورے یورپ میں پھیل گئی۔ تیس سال بعد آج بھی چرنوبل میں تابکاری کی سطح خطرے سے بلند ہے، اور وہاں کے باشندے اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکتے۔
چرنوبل کے حادثے نے ایٹمی بجلی گھروں کی مخالفت تیز کر دی۔بالآخر نیو یارک کے گورنر نے شورہم کے بجلی گھر کو بند کرنے کا حکم دے دیا۔ وہ ایٹمی بجلی گھر جو ساڑھے پانچ ارب ڈالر سے تعمیر ہؤا تھا، ذرہ برابر بجلی پیدا کئے بغیر بند ہو گیا، اور اگلے تین سالوں میں مزید 19کروڑ ڈالر کے خرچ سے اسے مکمل مسمار کر دیا گیا۔
تو جو رقم اس پر خرچ ہوئی اس کا بوجھ کس پر پڑا؟ مقامی باشندوں نے ری ایکٹر کے حادثے کا شکار ہونے پر اس بات کو ترجیح دی کہ تقریباً چھ ارب ڈالر کا خرچ خود برداشت کر لیں۔ چنانچہ انہوں نے اس خرچ کوتیس سال تک بجلی کے زائد نرخ کے طور پر ادا کرتے رہنا قبول کر لیا، اور اب تک ادا کر رہے ہیں۔ اس سے ہمیں اندازہ کر لینا چاہئے کہ آبادی کے انخلاکی پیشگی منصوبہ بندی کس قدر اہم ہے۔
اب بھی وقت ہے کہ اٹامک انرجی کمیشن، مقامی شہری انتظامیہ اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی NDMA ساتھ مل کر آبادی کے انخلا کامنصوبہ تیارکریںاور اس کے قابل عمل ہونے کی عملی تصدیق کریں اور اس دوران ہاکس بے کے بجلی گھروں پر کام روک دیا جائے۔
(صاحب تحریرقائداعظم یونیورسٹی شعبہ فزکس کے ریٹائرڈ پروفیسر ہیں اور ایٹمی اسلحے کے خلاف عالمی تحریکوں میں حصہ لیتے ہیں)۔


.
تازہ ترین