• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک روز بڑے ہی باعلم صحافی ٹی وی پر فرمان جاری کررہے تھے کہ عمران خان چونکہ جنگل کے شیر ہونے کے دعویدار ہیں اس لئے انکا رویہ جارحا نہ ہوتا ہے۔ تمام ترآداب کو ملحوظ خاطررکھتے ہوئے ان فاضل صحافی کی خدمت میںعرض ہے کہ گزشتہ صدی میںدنیا نے بہت سے بلند پایہ سیاسی رہنما دیکھے ہیں جو حاکمانہ رویہ رکھنے کے باوجود اپنے موقف کی صداقت کیلئے نہ صرف مضبوط، ٹھوس اور موثر دلائل استعمال کرنے کا وصف رکھتے تھے بلکہ عوامی اور نجی سطح پر سچے، شائستہ اور مہذب رویئے کا مظاہرہ کرتے تھے۔ وہ اصولوں کی سیاست کیا کرتے اور سچائی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑتے تھے۔ ان میں قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، سابق برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل، سابق امریکی صدور ابراہم لنکن ، رونلڈ ریگن اور نیلسن منڈیلا شامل ہیں۔ وطن عزیز میں دو شخصیات عمران خان اور طاہرالقادری نے طرز سیاست کو ایک بڑا ہی خوفناک رخ دیا ہے جس کا مستقبل لرزہ خیز دکھائی دے رہا ہے۔ وہ الزامات کو دشنام طرازی میں تبدیل کررہے ہیں ۔ 120دن کا دھرنا ختم ہوگیا لیکن عمران خان ابھی تک دھاندلی کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ ایک طرف وزیراعظم سی پیک منصوبہ، موٹرویز، پل، ائیرپورٹس سمیت بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں تو دوسری طرف عمران خان کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت ان منصوبوں پر ماتم کناں ہیں۔ 1930کی دہائی میں امریکہ اور یورپ شدید مالیاتی بحران کی زد میں آگئے۔ 140ارب ڈالر ڈوبنےکے بعد 9ہزار بینک دیوالیہ ہوگئے۔ قحط اور بے روزگاری عام ہو گئی۔ اس خوفناک صورتحال سے نمٹنے کیلئے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے متعدد عوامی فلاحی منصوبے ترتیب دئیے۔ 30ہزار نوجوانوں کو درخت لگانے، پل بنانے اور ساحلوں کی صفائی پر معمور کردیا گیا۔ اقتصادی حالت کو مہمیز لگانے، روزگار کی فراہمی اور معیار زندگی کو بلند کرنے کیلئے کئی تجاویز پرعمل جنگی بنیادوں پر کیا گیا۔ 5ارب ڈالر سے سوشل سیکورٹی کا محکمہ اور کمیونٹی ویلفیئر کے لئے انشورنس کمپنیاں بنائی گئیں۔ پاکستان میں بھی امریکہ کی طرز پر تحریک انصاف کی بنیاد رکھتے ہوئے عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ لگایا اور نئی، ایماندار قیادت لانے کا وعدہ کیا۔ پہلے قدم پر ہی انھوں نے یوٹرن لے لیا۔ دوسری سیاسی پارٹیوں کی راندہ درگاہ قیادت مستعار لی گئی۔ فارورڈ گروپ بنانے والے نظریاتی رہنما جسٹس وجیہہ الدین سمیت متعدد پارٹی رہنما آج ان سے سوال کررہےہیں کہ کہاں ہے وہ نئی نوجوان اور ایماندار قیادت جس کو لانے کا عمران خان نے دعویٰ کیا تھا۔ مینار پاکستان پر کھڑے ہوکر خدا کو حاضر ناظر جان کر سچ بولنے کا وعدہ کرنے والے عمران خان نے جتنے وعدے کئے ان میں سے اکثر توڑ دئیے عمران خان ایک جارحانہ پالیسی اختیار کر چکے ہیں۔ انھوں نے1999میں نواز حکومت کی برطرفی پر پہلے پرویز مشرف کی حکومت اور ریفرنڈم دونوں کی کھلی حمایت کی اور بعد ازاں مخالفت کی تلوار مشرف پر ہی تان لی۔ 2007میں عدلیہ بحالی تحریک میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی پہلے ہیرو کہہ کر حمایت کی اور پھر 2013کے انتخابات میں انھیں دھاندلی کا مرکزی مجرم قرار دیا عدالت نے طلب کیا تو معافی مانگ لی۔ یہ وہی عمران خان ہیں جنھوں نے1996میں الطاف حسین کی رہائش گاہ کے دورہ کے موقع الطاف حسین کو محب وطن قرار دیا تھا لیکن مئی 2013 میں الطاف حسین کو قاتل اور غاصب کہہ کر پکارا۔ پہلے وہ گجرات کے چوہدریوں کو ڈاکو اور ملک دشمن کہتے تھے آج وہ ان کے اتحادی ہیں۔ پہلے وہ عوامی اجتماعات میں بےنظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو لٹیرا جوڑا قرار دیتے رہےاور اب ان کے ساتھ گرینڈ الائنس تشکیل دے رہے ہیں۔ دروغ گوئی اور الزام تراشی کی اس جنگ میں طاہر القادری بھی پیچھے نہیں ہیں۔ چند ہفتے قبل طاہر القادری نے سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ پینگیں بڑھا رہے ہیں۔ اسی طاہر القادری نے2012میں اسی نریندر مودی کے دور وزارت اعلیٰ میں بطور اسٹیٹ گیسٹ بھارت کا دورہ کیا اور گجرات میں مسلم کش فسادات کی مذمت میں ا نکے منہ سے ایک لفظ بھی نہ نکلاتھا وہ کیا سمجھتے ہیں کہ عوام کا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ وہ سب کچھ بھول جائیں گے؟ان کا دوغلا رویہ بڑا ہی عجیب ہے کہ ایک طرف عمران خان اور طاہر القادری جمہوریت کی خصوصیات پر لیکچر دیتے ہیں اور دوسری طرف مقتدر قوتوں سے مداخلت کی اپیلیں کرتے ہیں۔ کیا وہ خیبر پختونخوا کے عوام کو اعتماد میں لے کر بتائیں گے کہ بلا رکاوٹ حکومت ملنے کے باوجود اپنے دعوئوں کا عشر عشیر بھی کیونکر حاصل نہیں کرپائے۔ مسلم لیگ ن میں واپسی کی تمام راہیں مسدود پاکر ٹانگہ پارٹی کی اکیلی سواری اپنی شیخ چلیاں پھیلا کر بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مصداق بن چکے ہیں۔ کوئی بھی عمران خان سے یہ مطالبہ نہیں کررہا کہ وہ سیاست ترک کردیں یا احتجاج نہ کریں مگر انہیں شائستگی اختیار کرنا چاہئے رائے ونڈ جلسے کے بارے میں عمران خان کے لب و لہجے سے عوام میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے اولین مقصد کے عین مطابق اگر رائیونڈ جلسہ میں کوئی شدید بدانتظامی ہوگئی تو پوری قوم انکی انتشار پسندی کو ہرگز بھلا نہیں پائے گی اور پھر ان کے خواب، خواب پریشاں بن کر انھیں ڈراتے رہیں گے۔


.
تازہ ترین