• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ ماہ قبل پنجاب حکومت کے محکمے پنجاب فوڈ اتھارٹی کی افسر عائشہ ممتاز نے اچانک لاہور کے ریستورانوں، ہوٹلز ، بیکریوں اور مٹھائیوں کی دکانوں کے کارخانوں میں چھاپے مار کر تھرتھلی مچا دی تھی ، عائشہ ممتاز نے کھانے پینے کی اشیاء کی تیاری کے حوالے سے حفظان صحت کے اصولوں کو نظر انداز کرنے پر خوب کام کیا یہاں تک کے بڑے بڑے نام والے اور فائیواسٹارز کے ٹیگ سجائے عوام کو مضر صحت کھانے کھلانے پر ان کے چالان کئے ، جرمانے ہوئے اور انہیں احساس دلایا کہ ان کا کام کتنا حساس ہے لیکن وہ لوگوں میںنہ صرف بیماریاں پھیلارہے ہیں، ان کی صحت سے کھیل رہے ہیں بلکہ خوراک کے ذریعے عوام کو زہر کھلا رہے ہیں، اس خاتون کو پورے ملک میں بہت پذیرائی ملی میڈیا نے بھی خوب اٹھایا، سوشل میڈیا پربھی اس کی کارکردگی موضوع بحث رہی اور صرف لاہور میں کارروائی کے باوجود پورے ملک کے عوام نے اسے داد تحسین دی ، جس کی وجہ سے دیگر صوبوں میں بھی ہلکی پھلکی ’’ٹھک ٹھک‘‘ شروع ہوگئی اور عوام کو دکھانے کیلئے ہلکے پھلکے چھاپے مارے گئے، لاہور میں خاص طور پر دیکھا گیا کہ عام ہوٹلوں اور ریستورانوں نے کک اور شیف نے سروں کو نیٹ کی ٹوپیوں سے ڈھانپ لیا ، بلکہ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک لطیفہ بھی بڑا ہٹ ہوا کہ ہوٹل میں کھانا کھانے والے گاہک نے ویٹر کو بلا کر اس کو ڈانتے ہوئے کہا کہ دیکھو کھا نے کی پلیٹ میں سے بال نکلا ہے ویٹر نے معذرت کرتے ہوئے گاہک کو انتظار کرنے کاا شا رہ کیا اور کچن سے جاکر کک کو پکڑ کے لے آیا، کک نے گرمی میں بنیان پہن رکھی تھی ویٹر نے گاہک کو متوجہ کرتے ہوئے کک کے سر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سر آپ دیکھیں ہمارا کک تو سر ڈھانپ کر کھانا بناتا ہے اس لئے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کھانا پکانے کے دوران کک کا کوئی بال کھانے میں گر سکے ، گاہک نے پلیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ تو پھر یہ بال………؟ ویٹر نے لاپروائی سے جواب دیتے ہوئے کہاکہ سر یہ بغل کا ہوسکتا ہے ۔


.
کہنے کا مقصد ہے کہ چند ہفتوں کے چھاپوں کے بعد صرف اتنا اثر ہوا کہ اب کک اور کچن کے اسٹاف نے اپنے اپنے سر ڈھانپ لیے ہیں اور سر کے بال کھانے میں نہیں گرسکتے،ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی سمیت دیگر صوبوں کے یہ محکمے تواتر سے کھانے پینے کی اشیاء بنانے والے ریستو رانوں ، ہوٹلوں اور دیگر اداروں پر چھاپے ماریں اور مک مکا کرنے کی بجائے ان سے اس بات پر سختی سے عمل کرائیں کہ حفظان صحت کے خلاف کوئی کام نہ ہورہا ہو، محض دکھاوے کی ’’لیپا پوتی‘‘ کے علاوہ کھانے کے اجزائے ترکیبی پر بھی نظر رکھی جائے ، اور بعض ٹی وی چینلوں کے اس طرح کے پروگراموں کی طرح خواہ مخواہ کیڑے نہ نکالے جائیں جہاں صفائی اور دیگر امور کا خیال رکھاجاتا ہے انہیں شاباش دے کر آگے بڑھ جانا چاہیے لیکن جو ریستوران، ہوٹل اور پیکنگ کے ذریعے جوس، دودھ، پانی بیچتے ا ور دیگر فوڈ آئٹمز بناتے ہیں ان پر کڑی نظر رکھی جائے اور ان کے بڑے برانڈز، بڑے نام یا خوش نما پیکنگ سے مرعوب ہونے کی بجائے اس بات کا کھوج لگایا جائے کہ وہ بند ڈبوں ، مرتبانوں، بوتلوں اور پلاسٹک کی دیگر پیکنگ میں کیا بھرتے ہیں، اسی طرح ملک بھر میں جعلی ڈاکٹروں اور حکیموں کی بھرمار ہے ان کے خلاف بھی سخت کارروائی کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بھی لوگوں کی صحت کے ساتھ کھیل رہے ہیں ، علاج اور طاقت کے نام پر لوگوں کے گردوں کو ناکارہ بنارہے ہیں، جو حکیم یا عطائی اپنے اپنے علاقوں سے کبھی باہر نہیں نکلے انہوںنے امریکہ، یوکے، جرمنی، یونانی طب اورنہ جانے کن کن ملکوں کے ناموں پر ہیلتھ کلینک بنارکھے ہیں اور اس سے بھی خطرناک امر یہ ہے کہ لوگوں کو ڈاک کے ذریعے بھی ادویات بھیج کر ان کی صحت اور زندگیوں سے کھیلا جاتا ہے اورعوام کی محنت کی کما ئی کولو ٹ کر ما لی طو ر پرقلا ش کیاجارہاہے بلکہ ان کی صحت کو ایسی نہج پر پہنچادیاجاتا ہے کہ صحت کے ماہرین بھی اس نقصان کا ازالہ نہیں کرسکتے ، میرا خیال ہے کہ عائشہ ممتاز کو نہ صرف متحرک ہونا چاہیے بلکہ ملک بھر میں قائم ایسے ادارے کے افسران کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا چاہیں ، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے اداروں کے انسپکٹر حضرات کی تنخواہیں بھی کم ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ملاوٹ اور مضر صحت کھانے بنانے والے پرائیویٹ ادارے انہیں با آسانی خرید لیتے ہیں، عوام عائشہ ممتاز جیسے افسران کو دیکھنا چاہتے ہیں بلکہ سب مل کر کہہ رہے ہیں عائشہ ممتاز تم کہاں ہو۔


.
تازہ ترین