• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے ایک معزز اخبار نویس ساتھی نے جو اپنے اخبار کے مالک بھی ہیں، تحریک ِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی لنچ کانفرنس میں یہ خیال ظاہر کیا کہ ’’پاکستان کے لوگ کرپشن کو پسند کرتے ہیں چنانچہ آپ کے دھرنےکے بعد آزاد کشمیر کے انتخابات میں مسلم لیگ نون جیت گئی تھی۔‘‘ ایک کونے سے تحریک ِ انصاف کی خواتین کارکنوں کی ٹولی سے ہنسی کی ہلکی سی آواز گنگنائی مگر شاید اس میں ہنسی کی کوئی بات نہیں تھی۔ بلاشبہ ہم جس سسٹم میں سانس لیتے ہیں، کاروبار کرتے ہیں، دولت کماتے ہیں اس میں کرپشن کی موجودگی سے انکار نہیں کرسکتے اور عمران خان کی تحریک ِ انصاف اسی سسٹم کے معیاروں کو پاکستان میں بھی بروئے کار دیکھناچاہتی ہے جومغربی دنیا کے ترقی یافتہ معاشروں میں پائے جاتے ہیں اور جن کے تحت پاناما لیکس کے الزامات کے جواب دینے یاوضاحت کرنے پر تمام حکمران مجبور ہو جاتے ہیں۔عمران خان کی یہ نیک خواہش بھی قابل قدر اور لائق تحسین ہے مگر اس سے وہ خود بھی انکار نہیں کرسکیں گےکہ ’’رفتار موٹر کاروں کی نہیں ہوتی ان سڑکوں کی ہوتی ہے جن پر یہ موٹرکاریں چلتی ہیں۔‘‘یہ صحیح ہے کہ عمران خان کی کپتانی کے دوران کرکٹ کے کسی کھلاڑی نے ’’میچ فکسنگ‘‘ کی جرأت نہیں کی ہوگی مگر اس کے بعد کرکٹ کی دنیا میں جو کچھ ہوا یا کیا گیا عمران خان اس سے بھی انکار نہیں کرسکتے۔اس لنچ کانفرنس میں ہمارے ایک ساتھی کا یہ خیال بھی صحیح تھا کہ جب تک سیاسی دھرنوں میں مڈل کلاس سے زیادہ تعداد میں ورکنگ کلاس، مزدور، کسان اور محنت کش آبادی شامل نہیں ہوگی تحریک انقلاب کی راہوں تک نہیں پہنچے گی مگر ہمارے ملک اور شہر میں محنت کشوں کا جلوس بھی چیئرنگ کراس کے آگے نہیں جاتا کیونکہ اس سے آگے ’’عوام‘‘ کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے اور اگر عوام جلوس کی قیادت سنبھال لیں تو پھر جلوس کو بغیر کسی فیصلے کے ختم کرنامشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے اور عوام کی قیادت کی نیت پر شبہ ہو تو چھتوں سے گملے بھی آسکتے ہیں۔ چیئرمین عمران خان نے بتایا کہ 30تاریخ کے دھرنے میں ورکنگ کلاس کی تعداد مڈل کلاس سے زیادہ ہوگی۔ کرپشن سے نجات حاصل کرکے بہتر زندگی گزارنے والوں میں اکثریت کسانوں اور مزدوروں کی ہوگی۔ایک موقعہ پر عمران خان نے کہا کہ اس تقریب میں موجود آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ کرپشن کیا ہے اور کہاں کہاں پائی جاتی ہے۔ کرپشن کا معاشرے سے غائب کرنا کتنا ضروری اور لازمی ہے۔ معاشرے اور سسٹم سے کرپشن، بددیانتی اور جرائم کو دور کرنے کا فریضہ کسی نہ کسی کو ضرور انجام دیناپڑے گاتو پھر سب لوگوں کو اس نیک کام کے لئے تیار کیو ں نہیں کرتے؟ عمران خان کے اس سوال کا جواب بھی شاید اس کالم کی پہلی سطروں میں موجود ہوگا۔ایک طویل عرصے کے بعد ہونے والی اس ملاقات میں عمران خان نے خاص طور پر میری صحت کے بارے میں پوچھا کیونکہ اس عرصے میں میرے ساتھ ’’برین ہیمبرج‘‘ کاحادثہ بھی ہوچکا ہے۔ عمران خان اپنے ان عزیزوں کو کبھی نہیں بھول سکتے جو شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کی مہم میں ان کے ہم قدم رہے ہیں چنانچہ وہ روسٹرم کی مخصوص نشستوں سے اٹھ کر جہانگیرترین، عبدالعلیم خان، اعجاز چوہدری، شفقت محمود، نعیم الحق، جمشید اقبال چیمہ، عائشہ چوہدری کوآرڈی نیٹر میڈیا سیل پنجاب اسمبلی، عاصم بخاری سیکرٹری انفارمیشن پنجاب اور عون چوہدری کے ہمراہ میری نشست پر آگئے۔عمران خان، جہانگیر ترین اور علیم خان نے سندس فائونڈیشن میں تھیلیسیمیا کے مریض بچوں سے ملاقات کرنے کا وعدہ کیا اور بتایا کہ وہ 30تاریخ کے بعد سندس آئیں گے۔ سیاست کے ’’گورکھ دھندے‘‘ میں کھو جانے والے بہت سے لوگوں کو اپنی یادوں کے ساتھ چلنے کی فرصت نہیں ملتی مگر عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کی یادداشت انشااللہ اقتدار کے کاریڈور کے اندر بھی زندہ رہے گی۔


.
تازہ ترین