• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شکارپور کا سانحہ اندوہناک ہی نہیں، ناکام سیکورٹی کی بدترین،اور خراب حکمرانی کی اس سے بھی بدترمثال ہے۔ حکمران انتہا درجے کے بے حس ہیں، ادارے شرم ناک حد تک لاپرواء۔ متاثرین شدید بیچارگی کا شکار، عرش ہلادینے والی بیچارگی۔ اور یہ سانحہ اُس وقت پیش آیا ہے جب حکمران سانحہ پشاور کے بعد ایک ایکشن پلان بناچکے تھے۔ اُس پلان پر عمل کب ہوگا؟ کس طرح ہوگا؟اور کہاں ہوگا؟ یہ غیب کا علم ہے، اللہ ہی جانتا ہے۔جو کچھ ہورہا ہے، وہ سامنے ہے۔ کچھ نہیں ہورہا۔
اِس ایکشن پلان میں، جس کا بہت شور ہے، کیا حفاظتی اقدامات کا کوئی ذکر اذکار ہے؟ شاید ہے تو۔ اسکولوں کے گرد حفاظتی انتظامات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے چھٹیاں بڑھادی گئی تھیں۔ تو کیا صرف اسکولوں کے آس پاس ہی یہ انتظامات کیے جانے تھے؟ کیا انتہاپسند دوبارہ، خدانخواستہ، صرف کسی اسکول ہی کو نشانہ بنائیں گے، ایسا آپ نے سوچ لیا۔ اور جو دوسرے مقامات ہیں، وہ بے آسرا رہیں؟ یہ مساجد، امام بارگاہیں، اہم تنصیبات؟ کیا وہاں حفاظت کی ضرورت نہیں۔ باتیں تو بہت بنائی جاتی ہیں۔ یہاں انتظامات کیے جارہے ہیں، وہاں انتظامات کیے جا رہے ہیں، یہاں کیمرے لگیں گے، وہاں مانیٹرنگ کا نظام ہوگا۔ مگر یہ سب ہے کہاں؟ کیمرے، اس بڑے شہر میں ، گزشتہ کئی برس سے لگ رہے ہیں۔ اربوں روپے ان کے لئے مختص کیے گئے تھے۔ وہ کہاں ہیں؟ وعدے ہیں اور دعوے۔ بس۔اور حفاظتی انتظامات؟ یہ کس کی ذمہ داری ہے ؟ مسجدوں، امام بارگاہوں اور دوسرے مقامات پر کون سیکورٹی فراہم کرے گا؟ شکارپور کی جس مسجداور امام بارگاہ پر حملہ ہوا، اب تو سب جانتے ہیں، وہاں کسی بھی قسم کے حفاظتی انتظامات نہیں تھے۔ اگر پولیس کا یہ دعویٰ درست ہے کہ حملہ خودکش تھا تو ظاہر ہے، اندر جانے والوں کی تلاشی کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ یہ اتنی صاف اور واضح بات ہے کہ اس پر مزید گفتگو کیا کی جائے۔ عوام کی سیکورٹی کے جو بھی ذمہ دار ہیں، (یہاں کوئی ذمہ دار ہے؟) انھوں نے یہ کیسے سوچ لیا کہ حملہ آور ان مقامات سے واقف نہیں ہوں گے جہاں حفاظتی انتظامات نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔یہ ماضی کے حادثات سے سبق سیکھنے کی بات ہے۔ مساجد اور امام بارگاہیں ملک کے کئی حصوں میں مسلسل انتہاپسندوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔ تو کیا ہر جگہ ان کی حفاظت کا بندوبست نہیں کیا جانا چاہئے؟ شکارپور میں یہ بندوبست کیوں نہیں تھا؟ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ جواب تو حکمرانوں کو دینا ہوگا۔ وہ پورے صوبے کے، پورے ملک کے حکمران ہیں۔ اس سانحہ کے بعد کیا ہوا؟ یہ بھی درد بھری کہانی ہے۔ اس پر ماتم اگر کم ہوا تو یہ ہماری بھی بےحسی ہے۔ اسپتال میں زخمیوں کی دیکھ بھال کا بندوبست نہیں تھا۔ لوگ اپنی مدد آپ کرتے رہے۔ یہ بات کہنا آسان ہے مگر کرنا مشکل ہے۔ زخمی کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے۔ زخمی کا خون بہہ رہا ہوتا ہے، اسے روکنے کا کام صرف اسپتال میں ہو سکتا ہے۔ زخمیوں کو اسپتال لے جانے کے لئے ایمبولینس کی ضرورت ہوتی ہے۔ شکارپور میں ایمبولینسیں کہاں تھیں؟ تھیں تو سہی، مگر خراب۔ ان کے ٹائروں میں پودے اُگے ہوئے تھے۔ شرم شرم۔ بہت سے زخمی زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ شرم شرم۔
اور اسپتال میں بھی طبی امداد کی سہولتیں کہاں تھیں کہ متاثرین کی دیکھ بھال کی جاسکتی۔ وہاں تو کئی ماہ سے کوئی سرجن ہی نہیں، تقرر ہی نہیں ہوا۔ یوں ساٹھ بے گناہ جان سے گئے۔ ان کے لواحقین پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ بچّے یتیم ہو گئے اور خواتین بیوہ۔ انتہاپسند تو اس المیہ کے ذمہ دار ہیں ہی، ذمہ داری مگر ان پر بھی عائدہوتی ہے جو حفاظتی انتظامات نہیں کرسکے، جو اسپتال میں مناسب بندوبست نہیں رکھ سکے، جو متاثرین کو بروقت ضروری طبی امداد فراہم نہیں کرسکے۔ یہ سب ذمہ دار ہیں۔ یہاں بھی ان سے جواب طلب کیا جائے اور آخرت میں تو یہ جوابدہ ہوں گے ہی۔
بے حسی کا ماتم یہاں ختم نہیں ہوتا۔ اس مظلوم صوبہ سندھ کے وزیرِاعلیٰ کب شکارپور پہنچے؟ حملہ جمعہ کی نماز کے وقت ہوا۔ صاحب رات گئے وہاں تشریف لے گئے۔ ان کی آمد کی خبر سن کر مقامی انتظامیہ، جو اگر کچھ امدادی کام کررہی تھی بھی، تو اسے چھوڑ چھاڑکر، شہر کو حاکم کے مزاج کے مطابق بنانے میں لگ گئی۔ اچانک وہاں صفائی شروع ہوگئی۔ شہر میں گندگی کے ڈھیر تھے جو پتہ نہیں کب سے اٹھائے نہیں گئے تھے ۔ ٹرک بھر بھر کے کچرا اٹھایا گیا کہ صاحب کے قدم رنجہ فرمانے سے پہلے شہر کا حلیہ کچھ تو ٹھیک کردیا جائے۔اس شہر کو حکومت میں ایک آدھ وزیر فراہم کرنے کا شَرَف حاصل ہے۔ سندھ اسمبلی کے اسپیکر صاحب کو بھی وہاں سے ووٹ ملے ہیں۔ یہ ان کا آبائی علاقہ ہے۔ مگر ان سب نے کبھی اپنے ووٹروں پر توجہ نہیں دی۔ کیوں دیں؟ وہ ان کے مزارعے ہیں، ان کاکام صرف صاحبوں کو ووٹ دینا ہے، انہیں اسمبلیوں میں بھیجنا ہے، اور خود مشکل میں زندگی گزارنا۔ یہ سوال کہ ترقیاتی رقم کہاں جاتی ہے؟ اس کا جواب مشکل نہیں۔ سب جانتے ہیں۔ رقم لینے والے سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ اسپتال میں اگر ایمبولینسیں خراب ہیں تو کیوں؟ اگر وہاں دوائیں نہیں ہیں تو وجہ کون بتائے؟ منتخب عوامی نمائندے یہ کام نہیں کرسکتے مگر پوچھ تو سکتے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں کرتے۔ بے حسی، بے حسی سی بے حسی۔
حکمران پتہ نہیں کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ مرنے والوں کو چند لاکھ روپے دے کر متاثرین کے دکھ کا مداواکیا جا سکتا ہے۔ حادثے کے فوراً بعد معاوضے کی رقم کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ اس سے اشک شوئی تو شاید ہو سکتی ہو، نقصان کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔ کسی انسان کی قیمت نہیں لگائی جاسکتی۔ چند لاکھ روپے کب تک کسی کے کام آسکتے ہیں؟ جس کا لال گیا ہے، اس سے پوچھیں۔ خود اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ان کے کسی بھی عزیز کی جان کی قیمت کیا ہے؟ اور یہ جو لگ بھگ پندرہ کروڑ روپے لواحقین کو دیے جائیں گے، ان میں سے کچھ رقم اگر حفاظتی انتظامات، ایمبولینسوں اور اسپتال پر پہلے ہی خرچ کردی جاتی تو کیا بہتر نہ ہوتا؟ حادثہ تو شاید پھر بھی ہوتا کہ حملہ آور کہیں زیادہ چالاک ہے۔ انھیں ناقص سیکورٹی والے مقامات کا پتہ چل جاتا ہے۔ کس بیس کے پیچھے کچی آبادی ہے اور وہاں کوئی نگرانی نہیں، کس اسکول کا پچھلا حصہ حملہ کرنے کے لئے زیادہ مناسب ہے، کس مسجد اور امام بارگاہ میں حفاظتی انتظامات نہیں ہیں، وہ خوب جانتے ہیں۔ سو حملہ تو پھر بھی ہوسکتا تھا۔ مگر مناسب انتظامات ہوتے تو کچھ زندگیاں شاید بچ جاتیں، کچھ بچّے یتیم نہ ہوتے، کچھ خواتین بیوہ نہ ہوتیں، کچھ گھروں کے رکھوالے اب بھی زندہ ہوتے۔ مگر یہ کون کرتا؟ بے حس حکمران؟ سندھ کے حکمرانوں کو تو اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ بروقت شکارپور پہنچتے۔ وہ شاید وزیراعظم کے ساتھ تھے جو اس روز کراچی میں تھے۔ وہاں امن و امان کی صورتِ حال پر اجلاس ہورہے تھے۔ اُس وقت یہ سانحہ ہوچکا تھا۔ پھر تو ترجیحات کی بات ہے، فوری ضرورت کہاں تھی؟ کیا انھوں نے سوچا ہوگا؟ اگر سوچتے تو خود بھی جاتے اور وزیرِاعظم کو بھی شکارپور لے جاتے۔ خود وزیرِاعظم کو بھی سوچنا چاہئے تھا۔ وہ اگر شکارپور چلے جاتے تو کیا بہتر نہیں ہوتا۔ سندھ بھی پاکستان میں ہے، وہ اس صوبے کے بھی وزیراعظم ہیں، اس صوبے کی بھی ذمہ داری ان پر آتی ہے۔ انھوں نے بھی نہیں سوچا۔ انھوں نے سوچا ہوگا ، یہاں سے انہیں کون سے ووٹ ملتے ہیں، ان کی جماعت یہاں ہے کہاں۔ وہ کیوں زحمت کریں۔
بے حسی ہر سطح پر ہے، افسوس، صد افسوس
تازہ ترین