• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
14اور 15اگست کو تقسیم ہند کے وقت سب سے اہم تنازع کشمیر تھا اور جو آج تک حل طلب ہے۔ پاکستان اور بھارت جنوبی ایشیاءکے دو ایسے ہمسائے ہیں جن کے درمیان دوستانہ مراسم دیرپا و خوشگوار تعلقات کا مضبوط بندھن قائم کئے بغیر نہ خطے میں پائیدار امن کا قیام ممکن ہو سکتااور نہ ہی ڈیڑھ ارب انسانوں کے روشن و خوشحال مستقبل کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب دونوں پڑوسی ملکوں کی قیادت تمام متنازعہ اموربالخصوص مسئلہ کشمیر کو افہام و تفہیم کیساتھ کشمیریوں کی خواہش کے مطابق حل تلاش کرنے میںپوری طرح مخلص اور سنجیدہ اقدامات اٹھانے پر آمادہ ہو جائے۔
تنازع کشمیر تقسیم ہند کے نامکمل ایجنڈے ہی کا حصہ ہےکشمیر کے حاکم نے مبینہ طورپر کشمیریوں کی مرضی کے بغیر بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا اور عوام نے اس فیصلے پر شدید مزاحمت کی۔پہلےبھارتی وزیر اعظم پنڈت نہرو خودیہ مسئلہ لے کر اقوام متحدہ میںگئے تھےجس پر اقوام متحدہ نے کشمیر میں استصواب رائے کی قرار دار منظورکر لی اور بھارت کو پابند کر دیا کہ وہ جلد ان قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کیلئے اقدامات کرے۔ مگر 65سال گزرنے کے باوجود کشمیر ی آج بھی اپنے اس حق کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ قائداعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا مگر اُن کے بعد ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وہ واحد رہنما تھے جو کشمیر کی اہمیت و افادیت سے پوری طرح سے آگاہ تھے۔ انہوںمسئلہ کشمیر پرپاکستانی قوم اور کشمیری عوام کی بے باک ترجمانی کی اور قائداعظم کے موقف کو تقویت بخشی۔بھٹو صاحب کے نزدیک پاکستان اور بھارت کے ترقی کیلئے ضروری تھا کہ دونوں ملک بقائے باہمی کے اصول کے تحت اچھے ہمسایوں کی طرح رہیں۔ جنگ اور جارحیت ان کے مسائل کا حل نہیں بھٹو صاحب نے دنیا کے سامنے اس مسئلے کو اجاگر کیا کہ بھارت اور پاکستان مسئلہ کشمیر کو حل کئے بغیر اس خطہ کو پائیدار امن نہیںدے سکتے۔ اور اس کا طریقہ کار تقسیم کا وہی فارمولا ہے کہ جہاں مسلم اکثریت ہو وہ علاقے پاکستان کا حصہ ہوں ، اس طریقہ کار پر سب کا اتفاق تھا تو پھر کیوں کشمیر کے لوگ اس حق سے محروم رکھے جا رہے ہیں۔ کشمیریوں کو اُن کا یہ بنیادی حق دینے سے بھارت کیوں گریزاں ہے۔کشمیریوںکے حق خود ارادی اور کشمیریوں کی رائے کا احترام ہی دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ اور اسی صورت میںپاکستان اور بھارت اچھے ہمسایوں کی طرح رہ سکتے ہیں۔ بھٹو صاحب کا کہنا تھا مسئلہ کشمیر کا پرامن حل ہی دونوں ہمسایوں کے درمیان پائیدار امن کی بنیاد بن سکتا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ پاکستان نسبتاً چھوٹا ملک ہے اور ہماری خارجی پالیسی کا بنیادی اصول تمام ملکوں خصوصاً ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا ہے۔ ہم بھارت کے ساتھ بھی امن اور دوستی چاہتے ہیں لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب بھارت اپنے عہدوپیمان کی تکمیل کرے جو اُس نے پاکستان اپنے عوام ، عالمی برداری کے سب سے بڑھ کر کشمیریوں کے ساتھ کئے ہیں۔
اس حوالے سےبھٹو صاحب نے اقوام متحدہ کی سلامتی میں وہ معرکتہ الا آرا خطاب بھی کیاجسے پاکستان کی تاریخ کی بہترین تقریر تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں اورنہ ہی یہ کبھی بھارت کا اٹوٹ انگ رہا۔ جموں و کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے حقیقت میں یہ بھارت سے کہیں زیادہ پاکستان کا حصہ ہے۔ کشمیر کے لوگ پاکستانیوں کا حصہ ہیں ہم ایک ہیں ہمارا تعلق خون کا تعلق ہے۔ ہم ایک جسم کی مانند ہیں ہمارا جینا مرنا ایک ساتھ ہے ہم ایک ہی خاندان اور قبیلہ ہیں۔الغرض ثقافت اور جغرافیےاورتاریخ ہر طرح اور ہر لحاظ سے کشمیری پاکستان کے عوام کا حصہ ہیں۔ ’’ہم ہزار سال تک جنگ لڑنے کیلئے تیار ہیں اوریہ ہماری بقاء کی جنگ ہے۔‘‘
بھٹو صاحب کا کشمیر پر یہ ٹھوس اوربلند آہنگ موقف اور بھارت کے ساتھ ایک ہزار سال تک جنگ لڑنے کا منفرد نعرہ پاکستانی قوم کو متحد اور یکجا کرنے کی بنیاد بن گیا۔ بھٹو بھارت کی ایٹمی استعداد حاصل کرنے کی پالیسی سے بخوبی آگاہ تھے اسی لئے انہوں نےبھارت کو بھرپور جواب دینے کے پختہ عزم کے ساتھ بھارتی سورمائوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم بنائیں گے۔
بھٹو صاحب کا مسئلہ کشمیر پر ایوب خان سے اختلاف ہی ان کی حکومت سے علیحدگی اور پیپلز پارٹی کے قیام کی وجہ بنا۔ بھٹو کی کشمیر پالیسی کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی آگے بڑھایا اور اپنے والد کی طرح دلیرانہ انداز سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔1989ء میں دوبارہ مسئلہ کشمیر عالمی مسئلہ بن کرابھرا اور تحریک آزادی کشمیر کو دنیا بھر میں اخلاقی مدد حاصل ہوگئی۔کشمیر کے محکوم عوام کے حقوق کیلئے محترمہ نے دنیا کے ہر فورم پر آواز بلند کی اورآل پارٹیز حریت کانفرنس کو کشمیری عوام کی نمائندہ تنظیم قرار دیتے ہوئے اسے اپنی پارٹی پالیسی کا جزو ٹھہرایا۔ محترمہ نے 5فروری 1990کو بطور وزیر اعظم اس دن کوکشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا اور مسئلہ کشمیر کے حل کی اہمیت کو اجاگر کیا جس نے دونوں ملکوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ محترمہ کے مطابق دونوں ملکوں کو اس مسئلے کے حل کیلئے نئی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ محترمہ کے مطابق اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو برقرار رکھتے ہوئے یہ کوشش کی جانی چاہئے کہ کشمیر کے دونوں اطراف کے باشندوں کو ایک دوسرے سے ملاقات کی اجازت ہو۔ محترمہ نے ہی سافٹ بارڈر کا تصور پیش کیا کہ دونوں اطراف کشمیریوں کے رشتہ دار بستے ہیں اس لئے انہیں ایک دوسرے سے ملنے کی سہولت حاصل ہو،تاکہ اعتماد سازی کی فضاء قائم ہو۔
محترمہ کے قریبی دوست جناب بشیر ریاض صاحب کے مطابق محترمہ کے دلیر اور مدلل موقف کی بناء پر بھارت کے دانشور یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے کہ ’’یہ بھٹو کی بیٹی ہے لہٰذا اِن کی چکنی چپڑی باتوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔‘‘ حریت کانفرنس کے بزرگ رہنماء سید علی گیلانی محترمہ کی کاوشوں کا اعتراف یوں کرتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے کے لئے محترمہ بے نظیر بھٹو نے جو کردار ادا کیا آج تک وہ کسی فوجی حکمران نے بھی نہیں کیا۔
آج بھٹو کا نواسہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا بلاول بھٹو جب دلیری کے ساتھ یہ نعرہ لگاتا ہے کہ ’’لواں گے لواں گے پورا کشمیر لواں گے‘‘ تو دراصل وہ بھٹوز کی شاندار روایت کے امین ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ بلاول بھٹو کا یہ اعلان پاکستان اور کشمیر کے عوام کے دل کی آواز ہے۔ بلاول بھٹو اقوام متحدہ کی افادیت پر سوال اٹھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ادارہ مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکام ہو چکا ہے اور کشمیری آج بھی اقوام عالم کے اُس وعدے کی تکمیل کے انتظار میں ہیں جو اُن سے حق خود ارادیت کی صورت میں کیا گیا۔ بلاول بھٹو کے مطابق برصغیر میں کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ کشمیر کے مسئلہ کا حل نہ ہونا ہے۔ ہم عالمی امن کا احترام کرتے ہیں اقوام عالم کو بھی انسانی حقوق اور حق خود اختیاری کا احترام کرنا ہوگا اس سے پر امن اور بہتر دنیا وجود میں آ سکتی ہے۔ بلاول بھٹو اقوام عالم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کے عوام کی بات سنیں جو دہشت گردی سے نبرد آزما ہیں جو جمہوریت کو مضبوط کر رہے ہیں لیکن کشمیر پر غاصبانہ قبضہ اس بات کا اظہار ہے کہ اگر اقوام عالم شہید بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کی آواز سن لیتیں تو آج دنیا کا امن ایک خواب نہ ہوتا۔
تازہ ترین