• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
22دسمبر 2014کی علی الصبح تین بجے دہشت گردی میں ملوث ایک نوجوان اخلاص برلاس کو فیصل آباد جیل میں پھانسی دے دی گئی اور لاش اس کے والداخلاق احمد کے سپرد کر دی گئی اور ان کے آبائی علاقہ، ہجیرہ ضلع پونچھ آزاد کشمیر میں تدفین ہوئی۔ ریکارڈ کے مطابق سزائے موت پا نے والے نوجوان کی والدہ کا تعلق روس سے تھا جو 21دسمبر کو اپنے بیٹے سے آخری ملاقات کے لئے پاکستان نہیں آ سکیں، البتہ تدفین کے فورا ًبعد وہ پاکستان پہنچیں اور ہجیرہ کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ ملک ایوب اعوان کو درخواست دی کہ وہ اپنے بیٹے کا جسد دیکھنا چاہتی ہیں ، قبرکشائی کر کے ان کی یہ خواہش پوری کی جائے۔ درخواست منظور کر لی گئی اور 23دسمبر کو ہجیرہ میں ایس ڈی ایم کی نگرانی میں قبرکشائی ہوئی۔ لیکن وفاقی حکومت کی سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے اس خاتون کو سیکورٹی خدشات کے تحت آزاد کشمیر جانے سے روک دیا گیا اورطے پایا کہ دہشت گرد کی لاش اسلا م آباد لائی جائے اور یہاں اس خاتون کو بیٹے کاچہرہ دکھانے کے بعد واپس ہجیرہ بھیج دی جائے۔ 23 دسمبر کو ہی ایمبولینس لاش لے کر اسلا م آباد کے پمز ہسپتال پہنچی تو قانون نافذ کرنیوالے ایک ادارے کے سربراہ نے اپنے طور پریا کسی حکم کے تحت لاش کو پمز ہسپتال میں رکھنے سے منع کرتے ہوئے متعلقہ عملے کو حکم دیا کہ اس لاش کو جلد از جلد اسلام آباد سے باہر نکالا جائے۔ اس حکم میں کیا حکمت تھی اس کا علم تو نہیں ہو سکا لیکن اتناضرور ہوا کہ حالات پر منفی اثرات مرتب ہونے کی ابتدا ہو گئی۔متعلقہ حکام نے پولیس کے علاوہ دو اسسٹنٹ کمشنروں، کامران چیمہ اور کیپٹن شعیب کو انتظامی اور سیکورٹی امور کی نگرانی پر مامور کردیا۔ ضلعی انتظامیہ کے دونوں نمائندے بروقت پمز ہسپتال پہنچ گئے اور اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ اسی اثناء میں تین سفارتکار بھی وہاں آ گئے۔ تاہم اعلیٰ حکام کی ہدایات کے باوجود کہ لاش کو اسلام آباد سے نکالنے کی کوشش کی جائے، سیکورٹی افسروںنے معاملات سلجھانے کی تگ و دو شروع کر دی۔ حالات نے انتظامی خواہشات کا ساتھ دیا اور پمز حکام نے یہ کہتے ہوئے لاش رکھنے سے معذوری ظاہر کر دی کہ Mortuary میں جگہ نہیں ہے۔ ضلعی انتظامیہ کو یہی جواب اسلام آبادکے دوسرے بڑے ہسپتال پولی کلینک سے بھی ملا۔ تاہم اسلام آباد سے باہر ہسپتالوں میں رابطہ کرنے پر راولپنڈی میں کڈنی سنٹر نے لاش رکھنے پر آمادگی ظاہر کر دی اور پولیس اور انتظامی افسروںکے علاوہ ایک سفارتخانے کے تین اہلکارو ں پر مشتمل قافلہ لاش کے ساتھ راولپنڈی کی جانب روانہ ہو گیا۔ بیان یہ کیا جاتا ہے کہ یہ قافلہ زیرو پوائنٹ کے قریب رک گیا اور سفارتکاروں اور انتظامی افسروں کے درمیان مکالمے کے بعد اس کہانی نے اس وقت نیا رخ اختیار کر لیا جب سفارتکاروں نے ایمبولنس کوفیض آبادکے قریب یوٹرن سے واپس اسلام آباد کی جانب موڑ لیا۔ اس وقت انتظامی اہلکار ایمبولنس کے ساتھ نہیں تھے۔ تاہم پولیس کی ایک گاڑی ان کے پیچھے تھی۔ کچھ ہی دیر میں سفارتکار ایمبولنس سمیت ڈپلومیٹک انکلیو کے گیٹ نمبر1 سے سفارتخانے میں پہنچ چکی تھی۔ اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس حکام اس بات سے بے خبر تھے کہ سفارتکار دہشت گرد کی لاش اپنے طور پرسفارتخانے لے گئے ہیں۔ تاہم جب وزارت داخلہ نے اس بارے میں معمول کی معلو ما ت حاصل کرنے کیلئے رابطہ کیا تو بھگڈر مچ گئی اور ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلا کہ سفارتکار متعلقہ حکام سے اجازت حاصل کئے بغیر لاش سفارتخانے لے گئے ہیں۔ اس بات کا علم نہیں ہو سکا کہ سزائے موت پانے والے نوجوان کی والدہ سفارتخانے میں موجود تھیں یا نہیں تاہم یہ لاش اگلے روز صبح واپس بھیج دی گئی۔ادھر انتظامی حکام نے خطرے کوبھانپتے ہوئے اور کسی الزام سے بچنے کیلئے فوری طور پر انکوائری آرڈر کر دی اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (جنرل) کو انکوائری آفیسر مقرر کر دیا۔ اے ڈی سی (جی) عبدالستار عیسانی کے چھٹی پر ہونے کی وجہ سے قائم مقام اے ڈی سی (جی) نعمان یوسف کو انکوائری سونپ دی گئی۔ انکوائری آفیسر نے انتظامی افسروں کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے پولیس کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے رپورٹ وزارت داخلہ کو ارسال کر دی۔
نعمان یوسف سے رپورٹ کے حوالے سے جب ان کی رائے پوچھی گئی تو انہوںنے کہا کہ بنیادی طور پر اس بات کی تحقیق کرنا مقصود تھا کہ ڈیوٹی پر مامور پولیس اور انتظامی اہلکاروں کی ملی بھگت سے لاش سفارتخانے لے جائی گئی یا ان کی کوتاہی تھی۔ تاہم انکوائری کے دوران دستیاب شواہد کی روشنی میں ثابت ہوا کہ یہ بدنیتی پر مبنی ملی بھگت نہیں تھی بلکہ کوتاہی اس کا سبب بنی۔ انکوائری آفیسر کے مطابق انتظامی اہلکاروں کے خلاف کوتاہی کا عنصر بھی ثابت نہیں ہو سکا لیکن شواہد پولیس کے خلاف جاتے تھے۔اسسٹنٹ کمشنرکامران چیمہ سے جب پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے سفارتکاروں کو لاش لے جانے کی اجازت دی تھی۔ انہوں نے اس بات سے دو ٹوک الفاظ میں انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ملاقات کسی سفارتکار سے ہوئی ہی نہیں تھی اورانہوں نے کسی کو لاش سفارتخانے لے جانے کی اجازت نہیں دی بلکہ ایمبولینس کو کڈنی سنٹر راولپنڈی کے لئے روانہ کیا گیاتھا اور یہی ان کی ذمہ داری تھی۔وزارت خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم سے جب اس معاملے میں وزارت خارجہ کے کردار اور سفارتخانے کی کارروائی کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اسے ’’قانون اور ضابطے‘‘ کے مطابق قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’اس میں آپ کو مسئلہ کیا ہے؟‘‘ تاہم انہوںنے اس بات کا جواب نہیں دیا کہ کیا سفارتکار اپنے طور پر لاش سفارتخانے لے جاسکتے تھے۔مسئلہ کسی کی ذات کا نہیں ٗقومی حمیت اور قانون کی بالادستی کا ہے۔ ایسے اقدامات کو روایات بنانے کی بجائے ان کی حوصلہ شکنی سے قومی وقار میں کمی نہیں آئے گی۔ادھر سفارتخانے کے ترجمان نے ایسے کسی سوال کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا کہ کیا ان کے ملک میں ایسا فعل قانون کے دائرے میں آتا ہے؟۔وزارت خارجہ کے ترجمان کے اس رویئے اور ضلعی انتظامیہ کے غیر ذمہ دارانہ کردار نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے جو Writ of the law کو براہ راست چیلنج کرتے ہیں۔ وزارت خارجہ کے لئے صرف ایک سوال ہے کہ کیا کوئی پاکستانی سفارتکار کسی دوسرے ملک میں ایسا کرنے کی جرأت کر سکتا ہے؟
تازہ ترین