• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ دنوں پی سی ایس افسران ہمیں ملنے آئے تو انہوں نے اپنے اوپر برہمن کلاس کی طرف سے رونگٹے کھڑے کر دینے والی ظلم و زیادتیوں کے بارے میں بتایا اور کہا کہ ہم اپنا جائز حق لینے کیلئے کئی سالوں سے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں لیکن ہم پھر بھی اپنا حق لینے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے۔ آپ خود ہی اندازہ لگائیں کہ جو بیوروکریٹ اپنے لاوارث افسروں کو انصاف دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں وہ عوام کو کیا انصاف دینگے۔ قیام پاکستان سے قبل انگریز سرکار نے پاک وہند کا انتظام وانصرام چلانے کیلئے انڈین سول سروس قائم کی۔ بعد ازاں اقلیتوں کو سول سروس میں شامل کرنے کیلئے انڈین پولٹیکل سروس بھی قائم کر دی گئی۔ اس طرح ہندوستان کے اندر مشکل ترین علاقوں میں لاء اینڈ آرڈر کو بحال رکھنے کیلئے اقلیتی سیٹوں سے چنے گئے ممبران کو انڈین پولٹیکل سروس میں 1947 تک شامل کیا جاتا رہا بلکہ یہ رواج آج بھی پاکستان کی سول سروس میں اس حد تک سرایت کر گیا ہے کہ چھیاسٹھ سال گزرنے کے بعد آج بھی ملک میں 93فیصد لوگ کوٹہ سسٹم پر اور صرف7 فیصد لوگ میرٹ پر فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منتخب کئے جاتے ہیں۔ یہاں فکر انگیز سوال یہ ہے کہ پاکستان کی سول سروس کی بنیاد کبھی میرٹ پر بھی رکھی جائے گی یااس کوٹہ سسٹم کے ذریعے ہی قومی یکجہتی کے نام نہاد مفروضے پرنااہل افراد کوہی بار بار بھرتی کیا جاتا رہیگا؟ سول سروس ابتدائی چند سالوں میں عروج پر جانے کے بعد70 کی دہائی سے روبہ زوال ہونا شروع ہوگئی۔ اسکے بعد سول سروس سیاسی حکمرانوں کے ماتحت ہوگئی اور پھر پاکستان کے اندر سیاسی وانتظامی گٹھ جوڑ کے دور کا آغاز ہوا جس نے بدعنوانی، اقرباپروری خویش پروری اور کک بیک کلچر کو جنم دیا۔ آج سول سروس بدحالی کے اس نقطہ عروج کو چھورہی ہے کہ معاملات کو حل کرنا تو درکنار وہ مسائل کا ادراک کرنے سے بھی قاصر ہے۔ سول سروس کو آج صوبوں کے اندر صرف اپنی بالادستی اور اجارہ داری قائم کرنے کی فکر ہے جس کا جال انہوں نے1993 میں آئی پی سی سی فارمولا کے ذریعے بُنا جس کے تحت پاکستان کے چاروں صوبوں میں گریڈ22 کو صوبائی سول سروس افسران کیلئے شجرِممنوعہ اور نوگو ایریا قرار دیدیا جبکہ گریڈ20 اور21 میں ہر صوبہ میں وفاقی افسران نے اپنے لئے60فیصد اور65فیصد بالترتیب مقرر کر لیا۔ پہلے تو جیسے تیسے کر کے دھونس دھاندلی سے یہ نظام چلتا رہا مگر2010 کے بعد اٹھارہویں آئینی ترمیم نے جب پہلی دفعہ صوبوں کو صحیح معنوں میں حقوق دیئے تو صوبائی افسران میں اپنے حقوق کے حصول کا شعور تیزی سے پنپنے لگا چنانچہ2010 میں چاروں صوبوں کے افسران نے متحد ہو کر حکومت پاکستان اور ڈی ایم جی ایسوسی ایشن کیخلاف سپریم کورٹ میں آئینی پٹیشن دائر کی جو کہ تاحال فیصلہ کی منتظر ہے۔ اس رٹ پیٹیشن میں یہ چیلنج کیا گیا تھا کہ جس آئینی معاہدے کے تحت صوبوں کے اندر وفاقی افسران کو تعینات کیا جاتا تھا وہ آئینی معاہدہ اعلیٰ عدلیہ کے سامنے پیش کیا جائے۔ صوبائی افسران نے دعویٰ کیا کہ ایسا کوئی تحریری معاہدہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے جس کے وجود سے حکومت پنجاب نے بھی تحریری طور پر انکار کیا ۔ نشیب وفراز سے گزرتی ہوئی سول سروس کی تاریخ میں یہ پہلا ٹھوس، مدلل اور اعلیٰ سطحی واقعہ تھا جس نے وفاقی افسران کو نہ صرف سوچنے پر مجبور کیا بلکہ کافی حد تک متزلزل بھی کر دیا۔ چنانچہ حیلے بہانوں سے 18 مارچ 2011 کو اس وقت کے چیف سیکرٹری پنجاب نے اپنے حقوق کی آواز بلند کرنیوالے سینکڑوں پی سی ایس افسران کو زیر حراست لے لیا۔ ایڈیشنل ہوم سیکرٹری پنجاب سے لیکر سپیشل جوڈیشل مجسٹریٹ تک کے 73 افسران کو بھیڑ بکریوں کی طرح زبردستی اس وقت کے ’’مسلمہ دیانت دار‘‘ آئی جی کی موجودگی میں قیدیوں کی گاڑیوں میں ٹھونس دیا گیا۔ چار خواتین جوڈیشل مجسٹریٹ اور ایک نابینا افسر کو بھی جیل بھجوا دیا گیا۔ بات یہیں پر ختم نہ ہوئی بلکہ چیف سیکرٹری پنجاب کے حکم پر تمام اضلاع کے ڈی سی او صاحبان نے ان تمام صوبائی افسران کو سرکاری مراعات سے محروم کر دیا جو صوبائی افسران کے حقوق کیلئے آواز بلندکر رہے تھے۔ ایک ہی رات میں200 صوبائی افسران کا تبادلہ کیا گیا جبکہ بغیر ابتدائی انکوائری کیے بہت سے صوبائی افسران کو بلاوجہ نوکری سے نکال دیا گیا۔ بہت سے افسران کو ڈرا دھمکا کر ان سے معافی نامے تحریر کروائے گئے مگر 6 صوبائی افسران کے نوٹسز آج بھی عدالت عالیہ میں زیر التوا ہیں۔ سول سروس نے ہی بی ڈی ممبران کے ذریعے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو مصنوعی شکست سے دوچار کیا۔ مشرقی پاکستان کے اندر نفرت کی فضا کو اس حد تک فروغ دیا گیا کہ پاکستان دولخت ہو گیا۔ اس بیماری کی وجہ سے ہم اس قدر انتظامی کمزوریوں کا شکار ہیں کہ آج بھی ہمیں قدرتی آفات یا کسی بھی اہم پالیسی پر عملدرآمد کیلئے فوجی افسران پر اضافی ذمہ داری عائد کرنا پڑتی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد جب صوبائی افسران بخوبی اپنا صوبہ چلا سکتے ہیں تو پھر وفاقی افسران کی صوبوں میں تعیناتی اور خصوصاً پنجاب پر ان کا قبضہ چہ معنی دارد؟ پوری دُنیا میں سول سروس کا تصور ’’افسر شاہی مخالف‘‘ قرار دیا جا چکا ہے جس میں تمام اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیے جاتے ہیں اور عوامی نمائندگان کو عوامی پالیسیاں بنانے کیلئے مکمل طور پر بااختیار کیا جاتا ہے مگرہمارے وطن میں آج بھی گنگا اُلٹی ہی بہہ رہی ہے۔ بدقسمتی سے آج بھی اس ملک کی پالیسیاں بابو بنا رہے ہیں اسی لئے کمشن اور کک بیکس پر سب سے زیادہ حق بھی وہی جتا رہے ہیں۔ بے انصافی پر مبنی یہ سسٹم اس وقت تک جاری رہیگا جب تک عوامی نمائندگان اپنے آپ کو پالیسی ساز شخصیات اور مدبر معتبر سیاستدانوں کے طور پر پیش نہیں کرینگے۔ سول سروس کے قومی یکجہتی کے تصور کو دیکھا جائے تو یہ ایک کھوکھلے نعرے سے زیادہ کچھ نہیں۔ بلوچستان میں جانا وفاقی افسران اپنے لئے کالے پانی کی سزا تصور کرتے ہیں۔ سندھ کا ثقافتی تنوع ان کیلئے موزوں نہیں۔ گلگت اور قبائلی علاقوں میں ایسے نازک اندام افسران کیلئے حالات انتہائی غیرموزوں ہیں اسی لئے انکا تمام تر قبضہ پنجاب میں قائم ہے۔ پنجاب میں یہ تسلط مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں خوب پروان چڑھا۔ یہاں تک کہ سول سروس کو اب ’’آئی سی ایس‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگا ہے چونکہ اب اُمور سلطنت اسی گروپ کے ذریعے چلائے جار ہے ہیں، اسی لئے چند بیوروکریٹ سیاہ وسفید کے مالک بن کر پاکستان کی تقدیر سے کھیل رہے ہیں۔ پاکستان ایسے نام نہاد قابلیت کے دعویدار بیورو کریٹس کیلئے کسی جنت سے کم نہیں جہاں احتساب اور محاسبے کا کوئی موثر نظام رائج نہیں جبکہ سیاستدان اور بیوروکریٹس مل کر ملک کو لوٹنے پر کمر بستہ ہیں۔ پنجاب کے اندر انتظامی گورننس کا یہ عالم ہے کہ ایک ہی شہر کے اندر ہر چیز کی قیمت قدم قدم پر مختلف ہے۔ عوام کی رسائی آج بھی بیورو کریٹس تک ناممکن ہے۔ مشرقی پاکستان کی طرح اب اس وفاقی بیوروکریسی نے صوبائی افسران کیساتھ ایسا متعصبانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے جس نے برہمن اور شودر کی یاد تازہ کر دی ہے۔
جی او آر کی پر تعیش رہائشگاہوں پر وفاقی افسران کا قبضہ ہے۔ گریڈ22اور21 کی تمام سیٹوں پر بھی وفاقی افسران کا قبضہ ہے۔پنجاب کے43 سیکرٹریز میں سے صرف2سیکرٹری پی سی ایس کے ہیں۔ کمشنرز میں سے صرف1کمشنر صوبائی سروس کا ہے۔ ریونیو بورڈ کے سینئر ممبر اور اے سی ایس کے عہدے بھی ڈی ایم جی کے قبضے میں ہیں۔ ہائوسنگ پالیسیوں، تنخواہوں اور الائونسز وغیرہ میں بھی وفاقی اور صوبائی سروس کے درمیان وسیع تفاوت پائی جاتی ہے۔ ہائوسنگ پالیسی کا تو یہ عالم ہے کہ 2009 میں جو پالیسی بنی‘ اسکے مطابق کوئی بھی ڈی ایم جی افسر صوبے سے باہر پوسٹنگ کے دوران پانچ سال کیلئے گھر اپنے قبضہ میں رکھ سکتا تھا جس کو بعد میں صوبائی افسران کے پر زور احتجاج پر دو سال کر دیا گیا جبکہ صوبائی افسران کیلئے جو پالیسی بنائی گئی ہے اس کے مطابق وہ اپنے ہی صوبہ میں تبادلہ کے بعد صرف دوماہ کیلئے گھر رکھ سکتے ہیں۔ اگر وہ دوماہ کے بعد گھرنہ چھوڑیں تو انہیں زبردستی غیر قانونی انداز میں60 فیصد پینل رینٹ جیسی سزائوں سے گزارا جاتا ہے۔ پنجاب میں اس کی ایک واضح مثال صوبائی سروس ایسوسی ایشن کے انفارمیشن سیکرٹری احمد خاور شہزاد کی ہے جس کو کمشنر ساہیوال کی طرف سے 3 لاکھ65 ہزار کا پینل رینٹ ڈالا گیا جس کیلئے اس وقت کے کمشنر سے چیف سیکرٹری کو بازپرس کرنا پڑی کہ کمشنر نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیوں کیا اور اس کے جرمانے کے فیصلے کو بے انصافی پر مبنی قرار دیکرختم کر دیا گیا۔ کمشنریٹ سسٹم کے بعد ابھی تک ضلعی ہائوسنگ پالیسی تیار نہیں کی جاسکی۔ یہ بات بڑی مضحکہ خیز ہے کہ2013 میں صوبائی افسران کیلئے جو اے سی آر فارم‘ پی ای آر فارم وضع کیا گیا ہے اس میں ان کی کارکردگی کے حوالے سے پانچ کالموں کو کم کر کے تین تک محدود کر دیا گیا یعنی مناسب، بہتر اور بہت بہتر جبکہ پہلے اس میں شاندار کارکردگی کا کالم بھی شامل تھا مگر اب کسی بھی صوبائی افسر کو’’ شاندار کارکردگی‘‘ حاصل کرنے کیلئے اے سی آر تحرک کرنے والے افسر کو خود اپنے ہاتھ سے شاندار کارکردگی کا کالم بنانے کا کہا گیا۔ برہمن کلاس سے تعلق رکھنے والے بیوروکریٹ آپس میں اتنے منظم ہیں کہ ایک دوسرے کو ہاکی کی طرح پاس دیتے ہیں اور اپنی پسند و ناپسند اور طاقتور میرٹ کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ اب تو لاوارث اور شودر کلاس برملا کہتی سنی گئی ہے کہ ’’ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوتے ہیں بدنام‘ وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا‘‘ کے مصداق راندۂ درگاہ بیچارے، لاوارث شودر ہی سزاوار ہوتے ہیں اور جن کے حکم پر وہ کچھ کرتے ہیں وہ اپنے برہمن گروپ کی مکمل پشت پناہی کی وجہ سے صاف بچ نکلتے ہیں۔ اگر اس ملک کو بچانا ہے تو مسلمہ دیانتدار، محنتی، خوفِ خدا رکھنے والے اور مثبت سوچ کے حامل غیرجانبدار افسروں کا انتخاب کرنا ہو گا۔ نااہل، مردم بیزار، طبلچیوں، حکمرانوں کی آنکھ کا تارا بننے کا فن جاننے والے اور ہر حکمران کو شیشے میں اتارنے والے مہاکلاکاروں سے جان چھڑانا ہو گی۔ بدقسمتی دیکھیں کہ سول سروس کا جو باوقار نام تھا، اسکے افسران اب مختلف سیاسی جماعتوں کا قبضہ گروپ بن کر رہ گئے ہیں۔ اب ایسے افسروں کو سیاسی جماعتوں کیساتھ ہی پکارا جانے لگا ہے اور ان مہاکلاکار بیوروکریٹوں کا بن بھائو اسٹاک ایکسچینج کی طرح بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے۔ حکمرانوں کو شیشے میں اتارنے والے برہمنوں سے آج تک کسی نے یہ تک نہیں پوچھا کہ ملاوٹ ختم کیوں نہیں ہوئی؟ مہنگائی ختم کرنے کی کوئی ٹھوس اور قابل عمل پالیسی کیوں نہیں بنائی گئی؟ قانون کی حکمرانی کیلئے کیا کیا گیا؟ ان کو اہم ترین عہدے دینے کیلئے کیا قابلیت اور معیار مقرر کیا گیا اور کیا ان کی ’’مثالی کارکردگی‘‘ سے عوام کو بھی آگاہ کیا گیا؟ طاقتور میرٹ پر ڈویژنوں اور اضلاع پر تعینات ہونے والوں سے کبھی کسی نے پوچھا کہ حضور، آپ غریب قوم کو کتنے میں پڑے اور قوم کو کیا دیا۔ ابھی تک ایسا کوئی نظام نہیں بن سکا جس کے ذریعے ان کی کارکردگی کا عوام کو بھی پتہ چل سکے
تازہ ترین