• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آپ کو یاد ہوگا گزشتہ ایک کالم میں ،میں نے لکھا تھا کہ بعض اوقات موجودہ سیاسی صورتحال کے منظر سے گزرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ جیسے پہلے ہم اس مقام سے گزر چکے ہیں اس لئے اگر سیاسی تجویز کرتے ہوئے اس میں تاریخ کا شعور بھی شامل کر لیا جائے تو بات زیادہ معتبر اور باوزن بن جاتی ہے ۔موجودہ صورتحال کے بارے میں تجویز نگاروں کا خیال ہے کہ سیاست پر مسلم لیگ(ن) کی گرفت مضبوط ہو چکی ہے اور گزشتہ بہت سے ضمنی انتخابات جیتنے کے علاوہ آزاد کشمیر کے انتخابات سویپ کرنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے اعتماد میں حددرجہ اضافہ ہو چکا ہے ۔ سیاسی فتوحات کے اس سلسلے نے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے غروراور حکمرانوں کے حواریوں درباریوں کےتکبر میں قابل دید اضافہ کیا ہے ۔ چنانچہ اب وہ ببانگ دہل کہتے ہیں کہ ہمیں تنقید و تنقیص کی پرواہ نہیں، یہ چند سرپھرے قلمکار جو مرضی ہے کہیں عوام ہمارے ساتھ ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ا س طرح کی صورتحال میں حکمران احساس زیاں کے بغیر غلطیاں کرتے ہیں، ان کی آمرانہ سوچ اور من مانی کارروائیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے، قومی خزانے کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے، میرٹ پامال ہوتی ہے اور خوشامدیوں کو اصول ضابطے توڑ کر نوازا جاتا ہے۔حکمرانوں کے خاندانوں کی سیکورٹی پر سات ارب روپے خرچ ہوں یا حکمرانوں کے سرکاری اور ذاتی دوروں کا قومی خزانے پر ناقابل برداشت بوجھ، میڈیا کے مخصوص چینل چاہے جتنا مرضی ہے شور مچائیں حکمرانوں کو اسکی پروانہیں ۔ مسلم لیگ (ن)کی قیادت کو سوفیصد سے بھی زیادہ یقین ہے کہ وہ آئندہ انتخابات پہلے سے زیادہ ووٹ لیکر جیتیں گے اور زندگی بھر حکمرانی کریں گے۔ چند سر پھرے لندن میں نہایت قیمتی جائیدادوں، منی لانڈرنگ، اور ترقیاتی منصوبوں میں غلط ترجیحات اور کمیشن، تعلیم و صحت کے شعبوں کی زبوںحالی، پانامہ لیکس، لفافہ جرنلزم، لاقانونیت اور ووٹوں کی خرید کے الزامات لگاتے رہیں، اس سے حکمرانوں کو فرق نہیں پڑتا کیونکہ انہیں یقین ہے کہ عوام ان ’’فضولیات‘‘ پر کان نہیں دھرتے اور وہ دل وجان سے ان کے ساتھ ہیں ۔
کچھ تجزیہ نگاروں کی رائے میں حکمرانوں کو ترقیاتی منصوبوں، میگاپروجیکٹس اور انداز سیاست کے سبب ووٹ ملتے ہیں جبکہ دوسرے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ حکمرانوں کی خوش قسمتی کا راز کمزور حزب مخالف میں ہے جو مختلف وجوہ کی بنا پر نہ حکمرانوں کے لئے بڑا چیلنج بن سکی ہے نہ عوامی مقبولیت حاصل کر سکی ہے ۔مختصر یہ کہ میں جب موجودہ سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالتا ہوں، حکمرانوں کا حددرجہ اعتماد، عوامی حمایت کانشہ اور اقتدار کا غرور دیکھتا ہوں اور دوسری طرف منقسم حزب مخالف، کمزور اپوزیشن اور اسکی عوامی دھارے سے الگ سرگرمیاں دیکھتا ہوں تو مجھے پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم زمانہ یاد آتا ہے جس کا میں عینی شاہد ہوں، کل کی بات ہے کہ میں ہو بہبو، بعینہ ہی یہ منظر پاکستان میں دیکھ چکا ہوں جسکی یادیں میرے ذہن میں تازہ ہیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی۔1972ء سے لیکر تقریباً 75-1974تک ذوالفقار علی بھٹو اپنی مقبولیت کے عروج پر تھے۔ لوگوں نے 1970ء کے انتخابات میں تلوار پر اندھا دھند مہریں لگا کر بھٹو کو اپنا لیڈر بنایا تھا۔ بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالتے ہی عوامی لہر پیدا کی، ملک ٹوٹنے کے زخموں پر مرہم رکھا، جنگی قیدیوں کو ہندوستان کے پنجے سے رہا کروا کر شملہ معاہد ہ کیا، 1973ء میں پاکستان کو پارلیمانی دستور دیا، اسلامی ممالک کے سربراہ کی کانفرنس منعقد کی، پاکستانیوں کے لئے اسلامی ممالک خاص طور پر خلیجی ممالک میں ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے اور سب سے بڑھ کر عوام میں سیاسی شعور کی سطح بلند کی اور مساوات کا احساس پیدا کیا ۔ بھٹو کے ان کارناموں کے پردے میں بھٹو کی آمرانہ ذہنیت، حزب مخالف کو کچلنے اور مخالفین کو ٹھکانے لگانے، اپنی پارٹی کے اندر اٹھنے والی مخالف آوازوں کو دلائی کیمپ بھجوانے اور ایف ایس ایف کے ظالمانہ استعمال کے کارنامے چھپے رہے ۔ بھٹو کے دور حکومت کے عروج کے دوران اس کے خلاف نواب محمد احمد خان کے قتل کی ایف آئی درج ہوئی لیکن بھٹو نے اسکی کائی برابر پروا نہ کی ۔اب ماڈل ٹائون کے سانحے کے خلاف ایف آئی آر کی صورت میں تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے ۔ 1976ء تک بھٹو کی عوامی مقبولیت عروج پر تھی پی پی پی ضمنی انتخابات جیت رہی تھی ،مخالف صوبوں میں حکومتیں گرائی جا چکی تھیں، لوگ دھڑا دھڑ پی پی پی میں شامل ہو رہے تھے ، بااثر سیاسی خانوادے ،جاگیر دار، سیاسی کارکن، فلمی اداکار دانشور وغیرہ پی پی پی کے سیاست پر غلبے، مستقبل پر گرفت اور عوامی مقبولیت سے متاثر ہو کر اسکی صفوں میں گھس رہے تھے حزب مخالف کمزور اور منقسم تھی اور بھٹو نے اپنی ذہانت اور سیاسی حکمت عملی سے اسے دبا دیا تھا ۔ولی خان کی (NAP)نیب پر پابندی لگ چکی تھی اور ایئر مارشل اصغر خان صاف ستھری شہرت کے باوجود کٹی ہوئی پتنگ کی مانند سیاسی فضا میں ہچکولے کھا رہے تھے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان دنوں اخبارات میں اس طرح کی خبریں اکثر نظر آتی تھیں کہ فلاں گدی نشین فلاں جاگیردار، فلاں ناول نگار اپنے تمام حمایتیوں اور چاہنے والوں کے ساتھ پی پی پی میں شامل ہو گیا ۔
1976ء کا سیاسی منظر آج کے منظر سے مشابہ لگتا تھا کہ بھٹو کا کوئی مقابلہ نہیں بھٹو زندگی کے آخری سانس تک حکومت کرےگا۔ بھٹو ابھی جوان ہے وہ کم از کم کئی دہائیوں تک حکمرانی کرے گا ۔کوئی اس کا ہم پلہ اور کو ئی اسے چیلنج کرنے والا نہیں ۔بھٹو نہایت چالاک اور متحرک حکمران تھا جلسے جلوس اور عوامی خطاب اس کے پسندیدہ مشاغل تھے ، پارٹی کارکنوں سے رابطہ اورگراس روٹ لیول پر رابطہ اس کی حکمت عملی کا جزو تھا، بیورو کریسی وفاداری کے سانچے میں ڈھل چکی تھی اور اپنا دم خم کھو چکی تھی جس طرح آج کل ہے۔نئے آئین کے مطابق اگلے عام انتخابات 1978 میں ہونے تھے اور بھٹو 1978ء تک وزیر اعظم رہ سکتا تھا لیکن اپنی مقبولیت ،عوامی حمایت، اقتدار کے نشے اور غرور، اور ضمنی انتخابات میں کامیابیوں نے بھٹو کی خدا داد ذہانت کو دھوکہ دیا اور اس نے حددرجہ اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے 1977ء میں یعنی ایک سال پہلے عام انتخابات کا اعلان کر دیا ۔دنیا کے ہر سروے اور تجزیہ نگاروں کے تجزیات کے مطابق بھٹو نہایت آسانی سے اکثریت حاصل کر سکتا تھا لیکن بھٹو کے بعض ساتھیوں نے غرور کے نشے میں اور بیورو کریسی کی وفاداری کا فائدہ اٹھا کر بعض مقامات پر انتخابات چرا لئے اور دھاندلی کی، تفصیل میں کیا جائوں پھر منقسم حزب مخالف متحد ہو گئی ،دھاندلی کے خلاف تحریک چلی جسے بعدازاں نظام مصطفیٰ کا رنگ دے دیا گیا۔ بھٹو کے مخالف سیاست دان، صحافی، سرمایہ دار، صنعت کار جن کی کاروباری سلطنتیں قومیالی گئی تھیں اوردیگر بھٹو مخالف عناصر متحد ہو گئے ۔بھٹو مخالف تحریک پر خوب سرمایہ کاری ہوئی بھٹو نے جس آمرانہ انداز سے مخالف آوازوں کو کچلا تھا کچھ لیڈروں کو قتل اور کچھ کو پابند سلاسل کیا تھا وہ ساری نفرتیں اس اتحاد میں شامل ہو گئیں۔مختصر یہ کہ وہ بھٹو جسے ناقابل شکست سمجھا جاتا تھا اور جس کے بارے میں عام تاثر ،بین الاقوامی اور قومی سطح پر یہ تھا کہ اسے جیتے جی ہرا یا نہیں جا سکتا، فوج کے ہاتھوں جولائی 1977ءمیں اقتدار سے محروم ہو گیا اور بالآخر پھانسی چڑھا دیا گیا ۔میں آج کے سیاسی منظرنامے پر نظرڈالتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے اگرچہ میاں صاحبان کے انداز حکومت اور حزب مخالف سے سلوک کے حوالے سے بھٹو کے دور حکومت اور موجودہ دور میں زمین آسمان کا فرق ہے البتہ بھٹو کے دور میں حکمران پر کرپشن،بیرون ملک محلات، کمیشن خوری اور منی لانڈرنگ کے الزامات نہیں لگے تھے ۔گویا تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ظاہر پر مت جائو، مستقبل نے اور مقدر نے اپنے باطن میں کیا چھپا رکھا ہے اس تک ہماری رسائی نہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی ، سیاست میں آج کا غالب کل کا مغلوب ہوتا ہے اور تجزیے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں ۔
بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالبـؔ
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں


.
تازہ ترین