• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت کے متعصب نیتاؤں، انتہاپسند پنڈتوں اور ’’را‘‘ کےناکام منصوبہ سازوں کے اجلاس میں ایک بدترین، طویل اور شرمندگی سے بھرپور گہری خاموشی طاری تھی … اچانک مُودی نے اپنے انتہائی نزدیک بیٹھی گہری سوچ میں گم سشما سؤراج کی جانب ایک نگاہ ڈالی اور گویا جیسے اُسے کچھ یاد آگیا ہو، یونہی کوئی پچھلے جنم کا قصہ، یا سشما میں اُسے ’’قدرت فلم‘‘ کی چندر مُکھی کے بجائے اچانک جیسے ’’پارو‘‘ نظر آ گئی ہو اور وہ مُورکھ اپنے آپ کو ’’مُودی‘‘ کے بجائے ’’مادھو‘‘ سمجھ بیٹھا ہو… چنانچہ اُس نے جبراً مسکراتے ہوئے ’’دُرگا‘‘ جیسی بنی سنوری حالانکہ وہ کسی ’’دُرگٹھنا‘‘ سے کم نہیں، سُشما سے کہا کہ ’’جانِ مُودی! تُم جانتی ہو، کہ تم میں اور پڑوسی پاکستان میں مجھے کون سی دو چیزیں کڑی ناپسند ہیں؟‘‘… سُشما نے یکایک تصورات کی پرچھائیوں سے باہر نکل کر ایک نگاہ مُودی کی بدصورت ’’چَھبی‘‘ پر ڈالتے ہوئے چپکے سے کان میں آہستگی سے دریافت کیا کہ ’’اے اِس پِرتھوی پر سب سے مردُود اور یمراج صفت پُرُش! جسے کسی پُرُش کو بھی پُرُش کہتے ہوئے شرم آئے لیکن اِس کے باوجود میں سننا چاہوں گی کہ تجھ جیسے بُرے کو مجھ میں کیا برا نظر آ گیا؟… سُشما کے ہاتھوں بھری سبھا میں آہستہ مگر زور سےمحسوس ہونے والے اپنے اِس اپمان پر مُودی کو گُسا (غصّہ)تو بہت آیا لیکن اُس نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے کہا کہ ’’سُشما رانی! تمہارے نام میں سے اگر ’’ما‘‘ ہٹ جائے اور ’’سؤر‘‘ کی جگہ صرف ’’راج‘‘ باقی رہ جائے تو کتنا اچھا ہو، میں جب بھی ماتا کا ما ہٹا کر تمہیں ’’سُش‘‘ کہتا ہوں تو یا تو سب خاموش ہو جاتے ہیں یا سمجھتے ہیں کہ میں کسی کو بھگا رہا ہوں یا اِس عمر میں مجھے اچانک ’’آ رہا ہے‘‘ اور اگر’’ما‘‘ جیسا پَوِتر شبدھ اِس کے ساتھ جوڑ دوں تو میری تو ماں بہن… سمجھ رہی ہو نا تم میں کیا کہہ رہا ہوں… اور پھر جب تم ایک ساتھ مجھ پر اور ہندوستان پر راج کر رہی ہو تو ’’سؤرتا کا داغ لگانا اَپ شَگُن‘‘ (بُراشگون) ہی نہیں بلکہ تم جیسی چریتر (کردار) والی مہیلا (عورت) کے لیے اَسمبَھو (ناممکن) ہے جس نے بھارت واسیوں کی لاج رکھتے ہوئے سنیُکٹ راشٹریہ (اقوام متحدہ) میں پڑوسی دیش پر پُرانی ناگن (رینا رائے والی) جیسا زہر اُگل کر بھارتی راشٹرکے مَن میں مَدھو بالا جیسی مَن موہنی صورت بنالی ہے ‘‘…
مُودی جیسے اِچّھا دھاری ناگ کے پھن سے اپنی پراشنسا (تعریف) سُن کر سؤر -راج مُسکرائی اور کچھ کہنے ہی والی تھی کہ گِرھ منتری (وزیر داخلہ) راج ناتھ سنگھ نے بات کاٹتے ہوئے مُودی کو یوں مخاطب کیا کہ ’’ساکشم پریے موُدی جی (قابل محترم مُودی جی) ہم سب اِس سمے ایک انتہائی گمبھیر سمسیا (مشکل) کا حل نکالنے کے لیے بیٹھک (اجلاس) کر رہے ہیں اور آپ بے وجہ رومانچک ہو رہے ہیں، اُوڑی سیکٹر میں بھارتی سینا پر حملہ دراصل بھارت کی پاکستان کو چیتاوَنی ہے …نِرین (فیصلہ) اب آپ نے لینا ہے… جوابی حملہ یا اِس حرکت پر مزید چرچا (بحث) تاکہ ہم وقت ضائع کیے بغیر کسی نتیجے پر پہنچ سکیں‘‘…راج ناتھ کی بات ختم ہوتے ہی مُودی کے چہرے کا رنگ یکسر بدل گیا اور اُس نے پہلے تو راج ناتھ کو ’’پریم ناتھ‘‘ کہا اور پھر کسی پُرانے مندر میں دبے ہوئے خزانےکی حفاظت کرنے والے سانپ کی طرح یوں پھنکارا کہ اوئے ’’راج ناتھ تُجھے پریم ناتھ بننے کی آوِشکتا (ضرورت) نہیں ہے کہ تُو اپنے وقت کی بہترین جوڑی کے ملاپ کو روکنے کے لیے ولن کا کردار ادا کرے، وہ تو ہم سب یہاں جمع ہی اِسی لیے ہوئے ہیں کہ پاکستان کو کس طرح کرارا جواب دیا جائے لیکن کیا تو اپنا سوابھیمان بھول گیا جو ہماری پرم پراؤں (روایتوں) میں پَریوَرتن (تبدیلیاں) لانے کی کوشش کر رہا ہے… یاد کر ! امیت جی کی فلم ’’محبتیں‘‘ جس میں اُنہوں نے ’’شاہ رُخ خان‘‘ جیسے ’’مُسلے‘‘ کو صرف اِسی لیے پَریوَرتن سے روکا تھا کہ وہ ’’آدھا مسلمان‘‘ کیا جانے کہ پَرم پرائیں کیا ہوتی ہیں جس طرح پڑوسیوں کے ہاں ایک مسلمان مولوی چاند دیکھنے سے پہلے ایک خوب صورت چہرہ دیکھنے کا خواہش مند تھا تاکہ چاند حسین نکلے بالکل اِسی طرح ہم بھی بہترین فیصلہ کرنے سے پہلے ’’سُشما‘‘ کی پراشنسا (تعریف) کو دھرم کا پالن سمجھتے ہیں تاکہ نہ تو ہمیں کوئی پچھتاوا ہو اور نا ہی فیصلے میں کسی قسم کی اَرچن (رکاوٹ)…بس تُو راج ناتھ رہ ، پریم ناتھ نہ بن!!…
راج ناتھ نے وزارت کی خاطر اپنے اپمان کو سہنے کے بعد ہکشما (معافی) چاہی اور خاموش ہو کر بیٹھ گیا کہ اِسی دوران ’’را‘‘ کا موجودہ سربراہ راجندر کھنہ اور سابق ساتھی اے دلت بھی اپنی نشستوں سے اُٹھے اور مُسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ ’’مُودی جی! آپ نے بالکل درست فرمایا… ہم نےبڑی لگن کےساتھ اِس ٹاسک پر کام کرتے ہوئے پتہ چلا لیا ہےکہ ہماری ’’بہادُر‘‘ سینا پر حملہ کرنے والے کہاں سے آئے تھے؟‘‘…یہ انکشاف سنتے ہی کمرے میں موجود سبھی بنیے ’’کمریں‘‘ سیدھی کر کےبیٹھ گئے اور ’’را‘‘ کے دونوں چلغوزے فاتحانہ انداز میں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ جیسے کہہ رہے ہوں ’’او دلِت! ہاں راجندر بول! ذرا دیکھ تو سہی کہ ہمارے بولنےکا کتنا اثر ہوتا ہے‘‘… ابھی وہ اِن ہی خیالات میں گُم تھے کہ مُودی نے بے تابی سے سے دریافت کیا بتاؤ جلدی بتاؤ کہ گھس بیٹھیے کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے؟… جواباً دونوں ایک ساتھ بولے ’’وہ سب پاکستانی تھے اور کشمیر سے آئے تھے‘‘…مُورکھوں کا یہ جواب سُن کر مُودی نے پیچ و تاب کھاتے ہوئے اپنی دھوتی اِس قدر اُٹھالی کہ ’’راج نیتی کو لٹا‘‘ (اِس کا ترجمہ میں قارئین پر چھوڑے دیتا ہوں) سُش- ما سؤر- راج کو بھی کہنا پڑا ’’مُودی جی ! بس کیجیے… اِ س سے زیادہ کچھ بھی دیکھنے کے قابل نہیں‘‘…مُودی نے دونوں’’را‘‘ کے پنڈتوں کو گھورتے ہوئےکہا کہ یہ تو پوری دنیا کو ہم مسلسل بتائے جارہے ہیں، کوئی دِن بھی ایسا نہیں گزرتا جب اِس پروپیگنڈے میں تیزی نہ آتی ہو…کہاں کہاں ہم نے یہ بکواس نہیں کی ہے، تم لوگوں سے ثبوت مانگا تھا، اِس گیت کے شبدھ نہیں کہ ’’کورا کاغذ تھا یہ مَن میرا، لکھ دیا نام اِس پہ تیرا‘‘…نام تو ہم پہلے ہی ’’پاکستان‘‘ لکھ چکے ہیں، تم سےثبوت اکٹھے کرنے کو کہا تھا اور تم نے ہم سے ہمارے ہی انداز میں بات چیت شروع کردی‘‘… مُودی کے خاموش ہوتے ہی سُش-ما نے دَلِت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے تم سے یہ اُمید نہ تھی‘‘…دَلِت بھی یک دم پروٹوکول بھولتے ہوئے کہہ اُٹھا کہ ’’اُمید سے تم کو ہونا چاہیے تھا سُشما! لیکن یہاں لوگ کیا جانیں کہ ماضی میں ہمارا کیا بھید تھا‘‘…قبل اِس کے کہ بات آگے بڑھتی راج ناتھ نے بیچ بچاؤ کرانے کی کوشش کرتے ہوئےکہا کہ ’’جب آپ دونوں کے پاس کوئی ثبوت ہی نہیں تھا تو آپ نے آج کی یہ بیٹھک کیوں بُلائی؟‘‘…
’’جی ثبوت تھا جب ہی بُلائی ورنہ ہم آپ جیسے نیتاؤں کو تکلیف کیوں دیتے؟‘‘ دونوں نے منہ بناتے ہوئے جواب دیا…آناًفاناً سب نرم پڑگئے اور کہنے لگے کہ چلیے جانے دیجیے آپ دونوں بتائیےکہ ثبوت کیا ہیں؟ …راجندر نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ٹیپ نکالا…سب ہی کے دِل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں اور پھر جیسے ہی ’’پلے‘‘ کا بٹن دبا تو ہال میں ایک رسیلی آواز گونجی کہ ’’میں اُڑی اُڑی جاواں ہوا دے نال‘‘ملکہ ترنم نے اِس حملے کی بہت پہلے پیش گوئی کر دی تھی، راجندر کے یہ آخری الفاظ تھے…


.
تازہ ترین