• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میرے سامنے واہگہ اور اس کے ساتھ رائیونڈ بھی ہے۔ کام دونوں جگہوں پر گرم ہے لہٰذا میرے لئے مشکل ہے کہ میں کسی ایک جگہ کو دیکھوں۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت عسکری اور سیاسی میدان سجے ہوئے ہیں۔ صرف پاکستان ہی میں ایسا نہیں ہے بلکہ بھارت کے اندر بھی ایسا ہی ہے۔ پاکستان میں سیاسی حکومت کے خلاف کل یعنی30ستمبر کو صرف رائیونڈ میں ا حتجاج ہوگا جبکہ مودی سرکار کے خلاف ہندوستان میں جگہ جگہ احتجاج ہورہا ہے، مودی جی کے لئے ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگ رہے ہیں ،پہلے یہ نعرے صرف کشمیر میں لگتے تھے اب یہ آوازیں سری نگر اور کپواڑہ سے نکل کر مراد آباد سمیت ہندوستان کے مختلف شہروں میں پھیل گئی ہیں۔ نریندر مودی زندگی بھر متنازع رہا۔ اب ہندوستان میں اس کو ہٹانے کے لئے سنجیدہ کوششیں شروع ہوچکی ہیں ان کوششوں میں مودی کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی شامل ہیں۔ بھارت میں ان دنوں سب سے زیادہ پریشان شخص کا نام اجیت کمار دوول ہے۔ اجیت کمار دوول کی تمام تدبیریں الٹی ہوچکی ہیں، سکھوں نے خالصتان کا پاسپورٹ ، کرنسی اور پرچم بنالئے ہیں۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سکھ اب یہ کوشش کررہے ہیں کہ پاکستان سمیت دنیا کے باقی ممالک خالصتان کے پاسپورٹ اور کرنسی کو تسلیم کریں۔ ہندوستان کو ایک طرف سکھوں نے پریشان کر رکھا ہے تو دوسری طرف کشمیر میں آزادی کی تحریک زوروں پر ہے۔ آج مقبوضہ کشمیر کے چپے چپے پر آزادی کے نعرے لگ رہے ہیں، جگہ جگہ پاکستان، پاکستان اور پاکستان ہورہا ہے، مقبوضہ کشمیر کے لوگ پاکستانی پرچم تھامے پاکستان سے محبت کا اظہار کررہے ہوتے ہیں۔ خالصتان اور مقبوضہ کشمیر کے علاوہ بھارت کے کئی علاقوں میں آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ مودی سرکار کی کوشش ہے کہ وہ جنگ کے نام پر ہندوستانی لوگوں کو ایک کرلیں مگر ایسا نہیں ہورہا بہت سے علاقے بھارت کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں ، مودی یہ الزام اپنے سر نہیں لینا چاہتے بلکہ وہ اسے فوجی شکست کا نام دینا چاہتے ہیں۔ بھارتی فوج کے انکار کے باوجود مودی سرحدوں کو ہر صورت میں گرم رکھنے کے قائل ہیں، ان کا خیال ہے کہ شاید اس طرح آزادی کی تحریکیں دب جائیں مگر یہ ان کی خام خیالی ہے۔ گزشتہ شب ہندوستان نے لائن آف کنٹرول پر فائرنگ کی جوابی فائرنگ سے اتنا نقصان ہوا کہ بھارت کو خاموش ہونا پڑا۔ ہمارے دو جوانوں نے شہادت کا رتبہ پایا جبکہ بہت سے بھارتی فوجی مارے گئے۔ ان کی تعداد درجنوں میں ہے۔ آئی ایس پی آر کے ڈی جی جنرل عاصم باجوہ نے میڈیا کے محاذ پر کمال کر رکھا ہے ان کے مقابلے میں ہندوستانی فوج کے ترجمان کہیں نظر ہی نہیں آتے۔ افواج کے میڈیا محاذ پر جنرل باجوہ جنگ جیت چکے ہیں۔ یہ پاکستانی قوم کی خوش قسمتی ہے کہ اسے جنرل راحیل شریف جیسا سچا پاکستانی کمانڈر ملا ہوا ہے۔ یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ پاکستانی افواج کو جنرل باجوہ جیسا ہمہ وقت متحرک جرنیل نصیب ہوا ہے۔ جنرل عاصم باجوہ نے آئی ایس پی آر کو نیا رنگ اور ولولہ دیا ہے وہ جدید ترین آلات کا استعمال بڑی چابکدستی سے کرتے ہیں۔
رائیونڈ پر بات کرنے سے پہلے ایک گزارش کرلوں، آپ روزانہ دیکھتے ہیں کہ شہرت کے بھوکے کئی ’’سیاسی اداکار‘‘ مختلف ٹی وی چینلز پر فوج کے خلاف باتیں کرتے ہیں، ان کے نزدیک فوج پر تنقید کرنا ایک فیشن ہے مگر انہیں یہ پتہ نہیں کہ شہادت کس قدر عظیم ہوتی ہے، ہماری حفاظت کرنے والے لوگ کس قدر اہم ہوتے ہیں، یہ لوگ موت سے نہیں ڈرتے۔ ان ’’سیاسی اداکاروں‘‘ کو اگر کہا جائے کہ آپ ملک کے لئے شہید ہوں گے تو پھر یہ آئیں بائیں شائیں کرتے ہیں پھر یہ کہتے ہیں کہ فوجی تو تنخواہ لیتے ہیں اگر ان سے کہا جائے کہ آپ اس تنخواہ سے بیس گنا زیادہ لے لیں مگر شہادت کی ہامی بھریں۔ اس کے بعد ان کے پاس کوئی بات نہیں ہوتی، پھر یہ بھاگ جاتے ہیں ، ان کے لئے صرف اتنا پیغام ہے کہ پاکستان عظیم ملک ہے، اس کی حفاظت کرنے والے عظیم لوگ ہیں، پاکستان ہمیشہ رہے گا، اس کے خلاف باتیں کرنے والے ہمیشہ نہیں رہیں گے۔
آج تیس ستمبر کو لاہور میں سیاسی میدان سجے گا۔ اس مرتبہ عمران خان نے احتجاجی جلسے کے لئے رائیونڈ کا انتخاب کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف احتجاج کریں گے۔ اس احتجاجی جلسے کی اجازت لاہور ہائی کورٹ نے29ستمبر کو دی۔’’مقدمہ رکاوٹ‘‘ عدالت میں ہونے کے باوجود تحریک انصاف نے تیاریاں جاری رکھیں۔ اس مرتبہ تحریک انصاف کے ساتھ ان کی’’کزن پارٹی‘‘ عوامی تحریک نہیں ہوگی۔ جشن کے وقت رشتے دار ناراض ہو ہی جاتے ہیں، آپ نے عام طور پر معاشرے میں دیکھا ہوگا کہ شادی بیاہ کے وقت کوئی نہ کوئی ناراض ہوہی جاتا ہے۔ یہی صورتحال پی ٹی آئی کے ساتھ پیش آئی۔ اس ناراضی کے باوجود تحریک انصاف کے اپنے کارکنوں میں بڑا جوش و جذبہ ہے۔ کپتان نے پچھلے چند دنوں سے لاہور میں رہ کر ساری پلاننگ کو خود ترتیب دیا ہے۔ دیکھئے آج کیا ہوتا ہے، جلسے جلوس سیاست کا حصہ ہیں مگر تصادم سے گریز کرنا چاہئے۔ شیخ رشید احمد کا بیان بڑا زبردست ہے کہ......’’صرف عمران خان، باقی لنگڑے گھوڑے ہیں‘‘ شیخ صاحب نے لنگڑے گھوڑے پتہ نہیں کس کو کہا ہے اگر لنگڑے گھوڑوں کو اعتراض نہیں تو ہمیں کیا؟ آخر میں واہگہ اور رائیونڈ پر نظر رکھتے ہوئے یہ شعر؎
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی


.
تازہ ترین