• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم سب بہت خوش تھے۔ جب ایک کے بعد دوسرا ہوتے ہوئے، پچاس چینل کھل گئے تھے۔ ایک سے دل ناخوش ہوتا، دوسرا لگا لیتے۔ یہ خوشی بھی چند روزہ ثابت ہوئی۔ پہلی وجہ تو یہ کہ سارے چینل ایک پروگرام کو تین چار مرتبہ دہراتے ہیں۔ کب تک اور کتنی دفعہ ان پروگراموں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ پھر وہ چند شخصیات جو اپنا اپنا ڈھول بجاتی، بغیر کسی مقصدیت کے بولتی چلی جاتی تھیں۔ خدا نہ کرے کہ کوئی اہم دن آجائے۔ بس پھر کیا تھا، صرف، صرف اور صرف، نہ کوئی دستاویزی فلم، نہ پاکستانی دانشور، نہ ادب اور نہ تاریخی نوعیت کی گفتگو نہ نوجوانوں کے پروگرام، نہ بچوں کےلئے کوئی دلچسپی، خواتین کو ذلیل کرنے کے لئے، ہر صبح کبھی مایوں تو کبھی شادی کے لباس اور ایسے آلو گوشت پکانے کی ترکیب کہ آلو وہیں رکھے رہ جاتے اور آہا ہا مزا آگیا۔
ہمسایہ ممالک سے چپقلش ہونے لگے تو ہر ایک ڈھول بجانے لگے ہم یہ کردینگے، ہم وہ کر دینگے، لفظوں کی قلا بازیاں ہونٹوں سے تھوک نکلنے کا منظر۔ یہ صرف پاکستان کے سارے چینل میں نہیں، انڈیا تو ہم سے دس گز آگے، رعونت کے ساتھ کہ بنگلہ دیش کو ہم نے آزاد کرایا تھا۔ کارگل میں ہم نے یوں شکست دی۔ یہ سوچے بغیر کہ ایسے اعلانات اور خرافات سے نوجوان نسلوں اور بچوں پر کیا اثر پڑےگا۔ جانتے ہوئے بھی کہ دونوں ممالک آخر پہلے بھی تین جنگیں کرکے، کس کا بھلا کرسکے ہیں۔ جانتے ہوئے بھی کہ دوسری جنگ عظیم کے بارے میں چرچل نے کس قدر نفرت کا مظاہرہ کیا تھا۔ جانتے ہوئے بھی کہ جاپان میں ایٹم بم گرا کر، آج تک امریکہ اپنی ذلت کا خون چاٹ رہا ہے۔ ان کو کوئی یاد نہیں کراتا کہ جب مہاتما گاندھی کو قتل کیا گیا تھا تو ابھی پاکستان بنے ایک سال ہی ہوا تھا اور پاکستان میں اس لیڈر کے قتل کے افسوس میں چھٹی کی گئی تھی۔ اسی طرح جب لیاقت علی خاں کو پاکستان میں قتل کیا گیا تھا۔ پورے انڈیا میں چھٹی کی گئی تھی۔ جب بھٹو صاحب کو بے وجہ پھانسی دی گئی تھی تو ہندوستان کے بھی بہت سارے بازار، خود بہ خود بند کردیئے گئے تھے۔ اندرا گاندھی کے قتل پر پاکستان میں بھی سوگ اور راجیو گاندھی کے دہشت گردی کے ہاتھوں قتل پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا اور ان افسوس ناک واقعات کے باعث، دونوں ملکوں کے تعلقات پر کیا اثرات پڑیںگے۔ اس کا سنجیدگی سے جائزہ لیا گیا تھا، بالکل جیسے کارگل کے اقدام کو نہ پاکستان میں اور نہ ہندوستان میں تحسین کی نظر سے دیکھا گیا تھا۔ ہماری بے نظیرکے قتل پر ساری دنیا روئی تھی۔
اب کشمیر میں مظالم پر بالکل اس طرح تجزیہ ہونا چاہئے۔ جیسے عراق، شام، یمن اور فلسطین کے حالات اور انسانی المیے ہمارے سامنے ہیں۔ یہ الگ بات ہے اور سخت اذیت کی بات ہے کہ نوجوانوں کی آنکھوں میں ایسی گولیاں ماری جارہی ہیں کہ ان کی آنکھیں ہی چلی جاتی ہیں۔ یہ سب اذیت، پاکستان کے کہنے پر یا پھر پاکستان کی شہ پر نہیں ہورہی۔ خدا کا خوف کہ 70 دنوں سے کسی جگہ کرفیو ہو تو اس بات کا تجزیہ کیا جائے تو انڈیا کے رجعت پسند صحافی، اسے انڈیا پر حملے کے متوازی ور پاکستان کو بے نقط لغویات سنائی جائیں۔ خیر سے ہمارے رجعت پسند، ملک کی محبت میں نہیں بلکہ بغض معاویہ میں بے ضرورت بولے چلے جائیں، دونوں ملک جانتے ہیں کہ جنگ کسی مسئلے کا مداوا نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کو ساسوں کی طرح طعنے نہیں دینے چاہئیں۔ اشوک اور مہاتما بدھ کے قدیم اثرات کی حفاظت ہماری اس طرح ذمہ داری ہے جیسے مغلوں کی تعمیرات کو محفوظ رکھنا، ہندوستان کی ذمہ داری۔ تاریخی طور پردیکھیں تو خان عبدالغفار خاں، پاکستانی گاندھی کہلاتے تھے اور انہوں نے جلال آباد میں دفن ہونے کی وصیت کی تھی۔ مگر جب پاکستان میں سرحد کی شمولیت کا سوال اٹھا تو ریفرنڈم میں سارے پشتونوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ اس طرح آپ میں سے جو میری عمر کے بزرگ ہیں یاد ہوگا کہ مسلمانوں کے قتل عام پہ 1947ء میں گاندھی جی نے احتجاجاً برت رکھا تھا۔ اب ہمارے درمیان نہ قائد اعظم ہیں اور صحافیوں میں نثار عثمانی جیسے لوگ، انڈیا میں ایک کلدیپ نیر ہیں جو ہمیشہ صلح اور امن کی بات کرتے رہے ہیں۔ کشمیر یا آسام یا چھتیو گڑھ کا مسئلہ، انسانوں کے ساتھ زیادتی کا مسئلہ ہے۔ ہمارے ملک میں جیسا کہ نوید قمر صاحب بتارہے تھے نیب والے انہیں زبردستی اٹھاکر لے گئے اور ڈھائی سال بعد خود ہی واپس چھوڑ گئے۔ ہم ایسے موضوعات پر بات کریں۔ ہم سب کوجنگ کے خلاف متحد ہونا چاہئے۔ اگر سارے چینل دونوں ملکوں کے ،آگ بھڑکاتے رہیں گے تو انہیں بند کر دیناچاہئے۔


.
تازہ ترین