• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ )
ہماری نظر میں آزادی کشمیر کے سلسلے میںبہر حال ایک آپشن ہمارے پاس یہ موجود تھا اور موجود ہے کہ باشندگان کشمیر اپنی جنگ قانونی ٗ اصولی اور سیاسی انداز سے لڑیں جس پرتشدد کی کوئی سیاہ چھینٹ نہ ہو اور مملکت پاکستان اسی وقار اور انداز میں عالمی سطح پر اس کی ممد و معاون بن کر تمام سیاسی، سفارتی اور اخلاقی طور طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے عالمی سطح پر اس آواز کو بلند سے بلند تر کرتی چلی جائے۔
جب ہم یہ کہتے ہیںکہ نوے بلکہ پچانوے فیصد کشمیری مسلمان بھارت کے ساتھ رہنے سے انکاری ہیں تو ہم انہیں یہ مشورہ کیوں نہ دیں کہ وہ بھارت کے مقابلے میں پرامن جدوجہد پر یوں ڈٹ جائیں کہ ووٹوں کے اسی تناسب سے وہ ریاستی اسمبلی میں پہنچیں۔ بھارتی حکومت اور اس کے سیاسی نظام کو ہم جتنا بھی برا بھلا کہہ لیں، بہرحال وہ ایک جمہوری ملک ہے یا کم از کم جمہوری ملک ہونے کا دعویدار ہے وہاں ایک مقررہ مدت کے بعد لوگوں کو ووٹ ڈالنے اور اپنے معتمد علیہ نمائندے چننے کا موقع دیا جاتا ہے۔
یہاں یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ انتخابات میں تو دھاندلی کر لی جاتی ہےاور کٹھ پتلی نمائندوں کو منتخب کروا لیا جاتا ہے۔ ایسی فضا میں سوائے بائیکاٹ کے، آزادی کا نعرہ لگانے والوں کے سامنے اور کوئی رستہ رہ ہی نہیں جاتا۔ بلاشبہ ہمیں اعتراف ہے اس دلیل میں بڑا وزن ہے لیکن سوال یہ ہے کہ نوے فیصد اکثریت کوئی معمولی قوت نہیں ہوتی۔ اگر وہ ڈٹ جائے تو دھاندلی کرنا اتنا آسان نہیں رہ جاتا۔ اس کے باوجود اگر ہوتی ہے تو اس پر پوری دنیا میں آواز اٹھاتے ہوئے عالمی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔ اب تو جہاں بھی الیکشن ہو رہے ہوتے ہیں، وہاں دنیا کے تقریباً تمام آزاد جمہوری ممالک آبزرویشن کے لئے اپنے نمائندے بھیجتے ہیں۔UN کے تحت بھی اس کااہتمام و انتظام کیا جا سکتا ہے کیونکہ تمام جمہوری دنیا شفاف الیکشن کو بڑی اہمیت دیتی ہے اور پھرپاکستان بھی اگر خود اس میں جمہوری حکومت قائم ہو اس سلسلے میںبہت کچھ کروا سکتا ہے۔ ایک دفعہ دھاندلی دو دفعہ دھاندلی اورکتنی مرتبہ دھاندلی کریں گے اور نوے فیصد لوگوں کے ووٹوں کو موثر ہونے سے کب تک روکیں گے؟ بالآخر یہ بات ممکن نہیں رہ سکے گی۔ جب یہ لوگ اسمبلی میں پہنچیں گے اور وہاں سے پیہم پر زور آواز نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی خود مختاری کے لئے بھی اٹھے گی تو اس کا اثر ہی کچھ اور ہو گا۔ مرکزی حکومت کے لئے اسے دبانا ہر حوالے سے مشکل سے مشکل تر ہوتا چلاجائے گا۔ اس اسمبلی کے زیر اثر پوری ریاست میں احتجاج کا ہر ہرطریقہ اپنایا جائے گا۔ اس جدوجہد کو کامرانی کی منزل تک پہنچتے ہوئے اگرچہ مدت دراز لگ سکتی ہے لیکن اس میں موجودہ خوفناک انسانی تباہی جیسی بھاری قیمت تو نہیں چکانی پڑے گی۔ آگ اور خون کا یہ طوفان تو تھم جائیگا جس سے آج کشمیر کا ہر آنگن آنسوئوں اور آہوں میں ڈوبا ہوا ہے۔
اگر ہم تحمل کے ساتھ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں کہ آج اس ہولناک تباہی کی صورت میں مظلوم کشمیری مسلمان آزادی کی جو قیمت چکا رہے ہیں۔ کہیںیہ آزادی سے بھی مہنگی تو نہیں ہے۔ یہ بہار کیسی آتی ہے جوخزاں بھی ساتھ لائی، اورپھر کون کہہ سکتا ہے کہ اس ذریعے سے بہار لازماً آئے گی بھی یا کب آئے گی، جبکہ اس دوسرے راستے پر عمل درآمد کی صورت میں آفتاب آزادی کو طلوع ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکے گی ۔ فی زمانہ جن ملکوں نے آزادیاں حاصل کی ہیں اور جو قومیں غلامی کی زنجیریں توڑ رہی ہیں، اس سلسلے میں ان سب کے حالات پر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔
سوویت یونین ٹوٹنے پر جب روس نے دیگر ریاستوں پر کنٹرول رکھنا چاہا تو یہ ان ریاستوں کی اسمبلیاں تھیں جنہوں نے آزادی کے حق میں قراردادیں پاس کیں۔ بوسنیا کا مسئلہ بڑا درد ناک تھا مگر ان کی پارلیمنٹ تھی جو پوری قومی جدوجہد کی نمائندگی کر رہی تھی۔ کوسوو اور مشرقی تیمور میں بھی ایسے ہی ہوا اور یہ بالکل فطری انداز ہے کہ جہاںجمہوری جدوجہد کا موقع میسر آ سکتا ہو وہاں اسی کو استعمال میں لایا جائے۔ جہاں یہ میسر نہ ہو وہاںبھی قوم ہی کو اٹھایا جائے۔ ایک اصول اور ضابطے کے تحت جدوجہد کی جائے جس میں طاقت اور تشدد کا عنصر کم سے کم تر ہوتا چلا جائے۔ آج کے دور میں جن تحریکوں نے تشدد کے اطوار اپنائے ہیں ٗ خواہ مسلمان ممالک کے اندر ہیں یا باہر انہوں نے اپنی منزل کو نزدیک نہیںکیا البتہ کئی مقامات پر بہت دور ضرور کر لیا ہے۔
آزادی کشمیر کے لئے ہمارا بیان کردہ یہ دوسرا راستہ کتنا متنازع اورقابل تنقید سہی لیکن برسوں سوچ کر ہمارے ذہن کے نہاں خانوں میں یہی ایک راستہ ہے، جس کے لئے لازم نہیں کہ ہم آخر کار ’’اِدھر یا اُدھر‘‘ شمولیت کی ہی بات کریں۔ تھرڈ آپشن بھی کوئی کافرانہ سوچ نہیں۔ اگر چھپن جائز ہیں تو ستاون ناجائزنہیں ہو جائیں گے۔ جو لوگ اس طرح کی سوچ کو ناقابل عمل خیال کرتے ہیں۔ انہیں غور کرنا چاہئے کہ اگر پانچ فیصد ووٹوں سے تشکیل پانے والی اسمبلی محض اندرونی خود مختاری کی بات کرتی ہے تو مرکزی حکومت خوف زدہ ہو جاتی ہے کہ ریاستی اسمبلی کی ایسی قرارداد ہندوستان کے لئے سخت تکلیف دہ ہو گی۔ کیونکہ اس سے نہ صرف دیگر کئی ریاستوں میں ایسی وبا پھیل جائے گی، بلکہ بین الاقوامی سطح پر عالمی برادری میں اس سے بھارت کی بڑی سبکی اور بدنامی ہو گی۔ دنیا یہ سمجھ لے گی کہ کشمیر ی بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے، اگر پانچ فیصد کٹھ پتلیوں کا اتنا وزن ہے جب پچانوے فیصد عوام کے حقیقی نمائندے اصولی و قانونی انداز سے سامنے آئیں گے تو کیا ان کی اسمبلی سے اٹھنے والی آواز کو محض فوجی بوٹوں کی طاقت سے دبایا جا سکے گا؟ آج کے دور میں عوام کی قوت ایٹمی قوت سے بھی زیادہ موثر ہے۔ شاید اسی لئے اب بین الاقوامی سطح پر یو این کے تحت عالمی جمہوریت کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے ۔ بالآخر اسی سے جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول ختم ہو سکے گا۔


.
تازہ ترین