• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سندھ سے واحد رکن قومی اسمبلی عبدالحکیم بلوچ نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ہے ۔ اس کے بعد قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سندھ سے کوئی نمائندگی نہیں رہی ہے ۔ اسی طرح پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پیپلز پارٹی بھی پنجاب میں کوئی زیادہ موثر نہیں رہی ہے ۔ آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ دو بڑی سیاسی جماعتوں سمیت کوئی بھی سیاسی جماعت پورے ملک میں اس طرح مقبول نہیں ہے ، جس طرح ایک زمانے میں پیپلز پارٹی پورے ملک میں مقبول تھی ۔ یہ بات پاکستان کے سیاسی مستقبل کے لیے اچھی نہیں ہے ۔ اس صورت حال کو ’’ بالکنائزیشن ‘‘ کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب ’’ مفاہمت ‘‘ میں ایک جگہ لکھا تھا کہ پاکستان کو ’’ طالبانائزیشن ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’ بالکنائزیشن ‘‘ کا بھی خطرہ ہے ۔ انہوں نے بالکنائزیشن کا مطلب بتاتے ہوئے کہا تھا کہ لوگ چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سات آٹھ بڑی سیاسی جماعتوں کا دائرہ اثر مخصوص صوبوں ، علاقوں یا گروہوں تک ہی محدود ہے اور یہی ’’ بالکنائزیشن ‘‘ ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کا سیاسی قلعہ پنجاب ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ وسطی پنجاب ہے تو غلط نہ ہو گا ۔ دیگر صوبوں میں مسلم لیگ (ن) اس طرح موثر نہیں ہے ، جس طرح ایک وفاقی سیاسی جماعت کو ہونا چاہئے ۔ مسلم لیگ (ن) بھی صرف پنجاب کے مخصوص علاقوں تک اپنے ووٹ بینک کو برقرار رکھنے کی پالیسی پر گامزن ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ پنجاب کے ان علاقوں سے نشستیں حاصل کرنے کے بعد وہ مرکز اور پنجاب میں حکومتیں بنا سکتی ہے ۔ دیگر صوبوں یا علاقوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں ایسے سیاسی رحجانات کو پروان چڑھایا ہے ، جنہیں پنجابی قوم پرستی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کا مضبوط سیاسی قلعہ سندھ ہے اور وہ بھی سندھ کی سیاست پر انحصار کر رہی ہے ۔ایک زمانے میں پیپلز پارٹی ملک کی واحد پارٹی تھی ، جو چاروں صوبوں ، آزاد کشمیر ، گلگت بلتستان اور قبائلی علاقہ جات کی سیاست پر اثر انداز ہونے والی مقبولیت کی حامل تھی اور وہ پورے ملک سے نشستیں بھی حاصل کرتی تھی ۔ ایک زمانہ تھا ، جب پیپلز پارٹی یا بھٹو کی سیاست ہوتی تھی اور ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی یا بھٹو مخالف سیاست ہوتی تھی ۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے اس سیاسی جماعت کی ملک گیر حیثیت کو ختم کرنے کے لیے بہت سے حربے استعمال کیے اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئی ۔ پیپلز پارٹی نے ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے اپنی بقاء کے لیے سندھ میں پناہ لی اور سندھ کارڈ استعمال کیا ۔ اس نے بھی سندھ میں قوم پرستانہ رحجانات کو پروان چڑھایا اور اس کی قیادت نے ایسا بیانیہ اختیار کیا ، جو دیگر صوبوں اور قومیتوں کے لیے پہلے جیسا ابلاغ نہیں رکھتا تھا ۔ پیپلز پارٹی کی حمایت اگرچہ پورے ملک میں موجود ہے لیکن اسے انتخابی کامیابی میں تبدیل کرنے کی پہلی والی صلاحیت اس میں موجود نہیں رہی ۔جہاں تک پاکستان تحریک انصاف کا تعلق ہے ، اگرچہ وہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح کسی ایک صوبے کو اپنا مضبوط سیاسی قلعہ نہیں بنا سکی ہے ۔ البتہ اس وقت وہ صوبہ خیبرپختونخوا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے ۔ پنجاب میں بھی وہ مضبوط اپوزیشن کے طور پر موجود ہے لیکن سندھ اور بلوچستان میں اس کا سیاسی وجود نہ ہونے کے برابر ہے ۔ تحریک انصاف کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کا سیاسی اثرو رسوخ شہری علاقوں کے اپر اور مڈل کلاس کے نوجوانوں میں زیادہ ہے ۔ نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں لیکن پاکستان کے نوجوانوں کے سیاسی شعور کا تجزیہ کیا جائے تو زیادہ خوش کن تصویر نہیں ابھرتی ہے ۔ پاکستان کی مڈل کلاس اور پڑھے لکھے نوجوان ایک مخصوص مائنڈ سیٹ رکھتے ہیں ۔ یہ طبقہ کسی بڑی سیاسی جدوجہد سے نہیں گذرا ہے ۔ اس طرح تحریک انصاف کی اپیل بھی ایک مخصوص طبقے تک موجود ہے ۔ مذکورہ بالا تین بڑی سیاسی جماعتوں کے بعد مذہبی جماعتوں کے دائرہ ہائے اثر کا جائزہ لینا ضروری ہے ، جو وفاقی جماعتیں ہونے کی دعویدار ہیں ۔ ان میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) زیادہ قابل ذکر ہیں ۔ ان مذہبی سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک بھی مخصوص مکتبہ فکر تک محدود ہے ۔ دیگر چھوٹی مذہبی جماعتیں بھی نہ صرف مخصوص مکتبہ ہائے فکر میں موثر ہیں بلکہ مخصوص علاقوں کے باہر ان کی حمایت نہیں ہے ۔ ان کے بعد قوم پرست جماعتوں کی سیاسی حمایت کا جائزہ لیا جائے تو انہیں اس بات پر مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے کہ وہ پورے ملک میں مقبولیت کیوں نہیں رکھتی ہیں ۔ ان کا ہدف ہی مخصوص قومی ، قومیتی ، لسانی یا نسلی گروہ ہوتے ہیں اور ان کی سیاست کا محور بھی ایک مخصوص سوچ کے گرد گھومتا ہے ۔ پاکستان کے لیے یہ تشویش ناک صورت حال ، جسے محترمہ بے نظیر بھٹو نے بالکنائزیشن کا نام دیا ہے ، اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ ملک میں طویل عرصے تک غیر جمہوری اور آمرانہ حکومتیں رہی ہیں ۔ ان کا لازمی نتیجہ تقسیم در تقسیم یعنی بالکنائزیشن کی صورت میں ہی نکلنا تھا ۔ اب اگرچہ ملک میں جمہوری عمل جاری و ساری ہے اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ جمہوریت چلتی رہے گی لیکن بالکنائزیشن والا عمل ختم نہیں ہوا ہے ۔ پاکستان کے لوگ قومیتی ، لسانی ، نسلی ، علاقائی ، مذہبی اور مسلکی بنیاد پر نہ صرف تقسیم ہیں بلکہ ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر جیسی کوئی قد آور سیاسی لیڈر بھی نہیں ہیں ۔ پاکستان کے غریب طبقات ، مظلوم قوموں اور کمزور گروہوں کے مسائل اس قدر بھیانک ہو چکے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت دھماکہ خیز صورت حال پیدا کر سکتے ہیں ۔ کوئی بھی سیاسی ، مذہبی یا قوم پرست جماعت پاکستان کے اندر پیدا ہونے والے طبقاتی اور گروہی تضادات کا نہ تو مکمل ادراک رکھتی ہے اور نہ ہی ان کے حل کے لیے ان کے پاس کوئی جامع پروگرام ہے ۔


.
تازہ ترین