• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
SMS: #AWC (space) message & send to 8001
Arshad.chaudhry@janggroup.com.pk
محکمہ موسمیات نے پیشگوئی کی کہ فروری کے پہلے دو ہفتوں میں ملک کے بالائی علاقوں اور پہاڑوں پر وقفے کے ساتھ برفباری ہو گی جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان نے سیاسی پیشں گوئی کر دی کہ سینیٹ کے انتخابات میں خیبر پختونخوا کی ایک نشست دو کروڑ روپے میں فروخت ہوگی۔ عام موسم کے برعکس ایوان بالا کے تین مارچ کو منعقد ہونے والے انتخابات نے ملک کے سیاسی موسم کو بہت گرما دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان سینیٹ کی زیادہ سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے کے لئے رابطے اور جوڑ توڑ جاری ہے۔ گلے شکوے دور کئے جا رہے ہیں کوئی پرانے اتحادیوں کو گلے لگا رہا ہے تو کوئی سیاسی حریفوں کو حلیف بنانے پر بھی تیار ہو چکا ہے لیکن پنجاب اور سندھ کے برعکس خیبر پختونخوا، بلوچستان اور فاٹا میں ماضی کی طرح اس بار بھی بھاؤ تاؤ کی کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔ اس ممکنہ لوٹ سیل کے بارے میں اپنے خدشات ظاہر کرتے ہوئے کپتان نے فکرمندی ظاہر کی ہے کہ لکشمی دیوی نے ان کی ٹیم میں نقب لگا دی تو یقینا سینیٹ میں امکانات کے برعکس ان کا اسکور کم ہو سکتا ہے۔ ہمیشہ سچ بولنے اور انصاف کا درس دینے والے چئیرمین تحریک انصاف کا جادو ان کی پارٹی کے ار کان پر بھی سر چڑھ کر نہیں بول سکا ،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں پر بھی عدم اعتماد ظاہر کرتے ہوئے خبردار کر دیا کہ وہ خیبر پختونخوا میں سینیٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کی بجائے اوپن بیلٹ کے تحت کرائیں گے۔ چئیر مین تحریک انصاف کو خطرہ ہے کہ پیسے کی چمک ان کی پارٹی کے کچھ ارکان کی آنکھوں کو خیرہ کر سکتی ہے لیکن قومی اسمبلی میں استعفوں کے معاملے پر ارکان کو پارٹی سے نکال دینے کی دھمکیاں دینے والے خان صاحب کو میری طرح آئین کی پیچیدگیوں کا زیادہ علم نہیں ہے۔آئین کے آرٹیکل 226 کے تحت سینیٹ کے انتخابات سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے ہی منعقد ہو سکتے ہیں۔آئین پاکستان کے اس آرٹیکل کی موجودگی میں کپتان اپنی ٹیم کے بعض ارکان کو میچ فکسنگ سے نہیں روک سکتے اور ویسے بھی اگر ماضی کی روایات کو سامنے رکھا جائے تو ان کی دھمکیاں اس معاملے میں زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوں گی۔ البتہ وہ ایسے طریقےضرور اختیار کر سکتے ہیں جن سے شیطان کو قابو کیا جا سکے کہ وہ تحریک انصاف کے صوبائی ارکان کے دلوں میں وسوسے پیدا نہ کر سکے۔
ان میں زیادہ آزمودہ طریقہ وہی ہے جس کے تحت ووٹ دینے والا بیلٹ پیپر پر مہر ثبت کر کے اس کی تصویر بنا لیتا ہے اور ٹیکنالوجی کا یہی استعمال اس کی ایمانداری اور پارٹی سے وفاداری کا ثبوت ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہی فارمولہ سینیٹ انتخابات کے لئے تجوریوں کے منہ کھولنے والے بھی استعمال کرتے ہیں اور قیمت دینے کے بعد ووٹ کے حصول کا ثبوت بیلٹ پیپر کی تصویر کی صورت میں طلب کیا جاتا ہے۔ ماضی میں سینیٹ انتخابات کے دوران پیسے کےبھرپوراستعمال کی ایسی مثالیں بھی سامنے آئی ہیں جب وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں یعنی فاٹا کی نشستوں پر امیدواروں نے اتفاق میں برکت کا فارمولا اختیار کیا۔ تین مارچ کو ریٹائرڈ ہو رہے ایک سینیٹر نے اس دلچسپ فارمولے کی تفصیلات یہ بتائیں کہ فاٹا سے سینیٹ کے امیدوار ایک سیٹ کی قیمت رائج الوقت کے مطابق آپس میں پیسے جمع کر لیتے ہیں اور اگر سینیٹ کی دستیاب نشستوں کے مقابلے میں امیدواروں کی تعداد بڑھ جائے تو آپس میں ٹاس کر کے فیصلہ کر لیا جاتا ہے کہ کون اس کار خیر میں شریک رہے گا اور کون اس کھیل سے دست بردار ہوجائے گا۔ اس کے بعد باقی بچ جانے والے امیدوار جمع کی ہوئی رقم کو اپنے الیکٹورل کالج یعنی فاٹا سے قومی اسمبلی کے ارکان کے درمیان مساوی تقسیم کردیتے ہیں اس طرح ایوان بالا تک پہنچنے کا جوئے شیر لانے والا کام مکمل ہم آہنگی اور خوش اسلوبی سے آسانی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ فاٹا میں سینیٹ کے لئے میچ فکسنگ اس لئے بھی بہت آسان ہے کہ وہاں رقم کو صرف چند بندوں ہی میں تقسیم کرنا پڑتا ہے اور پھر سیٹ بھی جھولی میں آگرتی ہے کیوں کہ سینیٹر بننے کے لئے وہاں صرف دو ووٹ ہی درکار ہوتے ہیں۔ پنجاب میں ایک جنرل نشست کے لئے اس بار 53، سندھ میں 23، بلوچستان میں 9 اور خیبر پختونخوا میں 17 ووٹ درکار ہیں۔ متناسب نمائندگی اور ٹرانسفرایبل ووٹ کے تحت منعقدہ سینیٹ کے انتخابات کا فارمولا بھی اتنا پیچیدہ ہے کہ مجھ جیسے بہت سے کم فہم لوگوں کو سمجھ آتے آتے انتخابات منعقد ہو جاتے ہیں۔ آج کل سینیٹ کے ٹکٹ کے حصول کے لئے بھی دلچسپ مقابلہ اور دوڑ جاری ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی اپنے پارلیمانی بورڈ کے ذریعے امید واروں کے انٹرویو کرنے کی مشق کر رہی ہیں تاکہ ثابت کر سکیں کہ وہ بہت جمہوری ہیں۔ حالانکہ جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان جماعتوں میں جمہوریت اتنی ہی ہے کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہوتا ہے اور جس نے ذرا سا پاؤں ادھر ادھر کھسکانے کی کوشش کی وہ اپنی منزل کھوٹی کر بیٹھتا ہے۔گزشتہ ہفتے حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نے بھی اپنے پارلیمانی بورڈ کا اجلاس منعقد کر کے جمہوریت پسندی ثابت کرنے کی کوشش کی۔اس بورڈ کی کمپوزیشن دیکھ کر مجھے بچپن کا۔۔ اکڑ بکڑ بمبے بو،اسی نوے پورے سو۔۔والا فارمولا یاد آ گیا جس میں تقسیم کے لئے گنتی وہاں سے شروع کی جاتی تھی جس میں گننے والا ہی ہمیشہ فائدے میں رہتا تھا۔ حکمران، جمہوری جماعت کے اس پارلیمانی بورڈ میں چئیرمین بورڈ یعنی وزیر اعظم کے پولیٹیکل سیکرٹری سمیت ایسے قد آور بھی موجود تھے جو خود بھی ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔ وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف نے گوناں گوں مصروفیات میں سے تین گھنٹے اٹھائیس منٹ نکال کر اجلاس میں شرکت کر کے جب امیدواروں سے پارٹی کے ساتھ وفاداری ثابت کرنے کو کہا تو بعض امیدوار ایسے بھی تھے جن کے لئے خادم اعلٰی سے ملاقات ہی سینیٹ کے ٹکٹ سے زیادہ قیمتی تھی۔ وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے ہی امیدوار نے وزیر اعلٰی سے کہا کہ اس نے تو پچاس ہزار روپے کی ناقابل واپسی فیس صرف دی ہی ان سے ملاقات کرنے کے لئے تھی۔ لیہ سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے امیدوار نے دوران انٹرویو پارٹی قائدین سے اپنی محبت کا ثبوت یہ بتا کر دیا کہ میاں نواز شریف کی جلا وطنی کے بعد اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ تب تک شادی نہیں کرے گا جب تک اس کا شیر وطن واپس نہیں آ جاتا۔ اس قسم کے چکر میں اس کی عمر بھی گزر گئی اور خاندان میں لڑکیاں بھی ختم ہو گئیں۔ اس وفاداری اور قربانی کا صلہ سینیٹ ٹکٹ تو ہونا چاہئیے نا۔ خیر پیسے کے اس کھیل میں پارٹی سے وفاداری اور ذاتی اہلیت کس حد تک شمار ہو گی اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے کیوں کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ایسے تگڑے امیدواروں کو ہی سینیٹ کا ٹکٹ دیں گی جو ضرورت پڑنے پر پارٹی ووٹوں کے ساتھ بکنے والوں کی بھی قیمت لگانے کے قابل ہوں۔ سیاست سے اس گندے دھندے کو ختم کرنے کے لئے یہ سیاسی جماعتیں خود بھی تیار نہیں ہیں ورنہ دو تہائی اکثریت سے اٹھارویں ترمیم کے تحت پارلیمنٹ کی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے تو سینیٹ انتخابات سے قبل آئینی ترمیم کے ذریعے اوپن بیلٹنگ کو ممکن بناکر عوام کے ووٹوں کے تقدس کا تحفظ بھی کیا جا سکتا تھا۔
تازہ ترین