• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشیدگی بڑھانا نہیںچاہتے، بھارت نے پاکستان سے رابطہ کر لیا

اسلام آباد (انصار عباسی) بھارت نے پاکستان سے رابطہ کر کے بتایا ہے کہ وہ اُڑی حملے کے بعد پیدا ہونےو الی صورتحال میں کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہتا۔ ایک موقر اور با اثر سفارتی ذریعے نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کے ایک سینئر مشیر نے اسلام آباد میں ایک اہم شخصیت سے رابطہ کرکے وزیراعظم نواز شریف تک پیغام پہنچایا ہے کہ بھارت کشیدگی میں مزید اضافہ نہیں چاہتا۔ جنگی جارحیت کے بعد، بھارت کو اب احساس ہوگیا ہے کہ پاکستان کیخلاف فوجی آپشن سے پاکستان سے زیادہ بھارت کو نقصان ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ واشنگٹن نے بھی جنگی جنونی بھارت کو پیغام دینے کے معاملے میں اہم کردار ادا کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ فوجی تنازع پید کرنے سے گریز کرے۔ ذریعے کا کہنا ہے کہ نئی دہلی کی جانب سے آزاد کشمیر میں ’’سرجیکل اسٹرائیک‘‘ کرنے کے دعوے کے بعد یہ اس کا اسلام آباد کے ساتھ کیا جانے والا نیاتازہ ترین رابطہ ہے۔ پاکستان نے واضح طور پر بھارتی دعوے کو مسترد کر دیا تھا اور اصرار کیا تھا کہ بھارت نے سرحد پار سے فائرنگ کی تھی جس کا پاکستان کی مسلح افواج نے بھرپور جواب دیا۔ بھارت کی جانب سے سرجیکل اسٹرائیک کے دعوے کے بعد کیا جانے والا یہ اعلیٰ سطح کا رابطہ اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ بھارت کی جانب سے بدھ کی رات کی جانے والی کنٹرول لائن کی خلاف ورزی اپنے لوگوں کو مطمئن کرنے کیلئے تھی۔ اُڑی حملے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد، مودی حکومت اور بھارتی میڈیا نے حملے کیلئے پاکستان کو ذمہ دار قرار دیا اور جنگی ماحول پیدا کردیا۔ پاکستان کا ماننا تھا کہ اُڑی حملہ پٹھان کوٹ بیس حملے کی طرح بھارت کا جعلی فلیگ آپریشن ہو سکتا ہے یا پھر اُڑی میں کشمیری حریت پسندوں نے بھارتی مظالم کا بدلہ لینے کیلئے حملہ کیا ہوگا۔ بھارت نے الزام عائد کیا تھا کہ جن لوگوں نے اُڑی میں حملہ کیا تھا وہ لوگ پاکستان سے داخل ہوئے تھے تاہم اس ضمن میں اسلام آباد کو کسی طرح کے شواہد پیش نہیں کیے گئے۔ اُڑی حملے کے بعد پاکستان کی جانب سے بالغ النظری کا مظاہرہ کیا گیا کیونکہ اسلام آباد نے ہمیشہ کشمیر سمیت تمام باہمی مسائل کے حل کیلئے مذاکرات پر زور دیا ہے۔ لیکن بھارت ہمیشہ جنگ کے ڈھول پیٹتا رہا ہے۔ اُڑی حملے کا وقت بہت ہی اہم تھا اور اس سے کئی لوگوں کو حیرانی بھی ہوئی تھی کیونکہ واقعے کے دو دن بعد وزیراعظم نواز شریف کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرکے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا پردہ چاک کرنا تھا جن میں چند ماہ کے دوران 100؍ سے زائد کشمیری شہید اور ہزاروں زخمی ہوگئے تھے۔ پاکستان روزِ اول سے ہی سرحدوں پر کشیدگی پیدا کرنے کے خلاف رہا ہے لیکن بھارتی حکومت اور اس کا میڈیا جنگی جنون میں مبتلا تھا جس کی وجہ سے سرحد پار فائرنگ کا واقعہ پیش آیا اور پاک فوج کے دو جوان شہید ہوئے۔ اطلاعات ہیں کہ پاک فوج کے جوابی حملے کے نتیجے میں کئی بھارتی فوجی مارے گئے۔ بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے کنٹرول لائن کے پاکستانی جانب ’’دہشت گرد ٹھکانوں‘‘ پر سرجیکل اسٹرائیک کیا تھا۔ بھارت نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ بھارتی فوجی نے سیکڑوں دہشت گردوں کو ہلاک کیا لیکن پاکستان نے بھارت کے ان دعووں کو مسترد کرد یا۔ پاک فوج کے ترجمان نے سرجیکل اسٹرائیک کے بھارتی دعوے کو مسترد کردیا اور کہا کہ بھارت کی جانب سے سرحد پار سے فائرنگ کی گئی۔ ترجمان نے بتایا کہ پاکستان اور بھارتی فوج کے درمیان آزاد جموں و کشمیر کے علاقوں بھمبر، تتہ پانی، کیل اور لیپا سیکٹر میں فائرنگ کا تبادلہ جمعرات کی رات ڈھائی بجے شروع ہوا اور صبح 8؍ بجے تک جاری رہا۔
تازہ ترین