• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیض نے کتنے پراثرانداز میں اپنا رشتہ ان لوگوں سے جوڑا تھا کہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے ۔ ان کی نظم کا ایک سیاسی اور نظریاتی پس منظربھی تھا۔ لیکن شاعر نے ان افراد سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا کہ جنہوں نے اپنے وطن اور اپنے عقیدوں سے محبت میں اور ایک نئی دنیا کے قیام کے لئے اپنی جان دے دی۔ لیکن اس وقت میری نظر ان پر ہے جنہیں تاریک راہوں میں بے دردی سے قتل کردیا گیا اور ان کی حیثیت وہی رہی جس کا ذکر بھی فیض نے اپنی ایک دوسری نظم میں کیا ہے کہ ’’یہ خون خاک نشیناں تھا، رزق خاک ہوا‘‘ یعنی نہ مدعی، نہ شہادت ، حساب باک ہوا ، بے آسرا، یتیم لہو۔ آپ شاید سوچیں کہ میں کسی فساد، کسی احتجاج میں جان سے جانے والوں کا ذکر رہا ہوں۔ جی نہیں۔ میںنے آج ذرا مشکل موضوع کا انتخاب کیا ہے اور اپنی جھجک کو فیض کی شاعری میں چھپانے کی کوشش کررہا ہوں۔ میں دراصل ان نوجوان خواتین کی عزت اور حرمت کا علم بلند کرنا چاہتا ہوں جنہیں غیرت بلکہ عزت کے نام پر قتل کیا جاتا رہا ہے۔ اسے ہم کاروکاری بھی کہتے ہیں۔ افراد، میدان کارزار میں، کسی قتل گاہ میں یا تاریک راہوں میں، اپنے دشمنوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ لیکن جن خواتین کا میں ذکر کررہا ہوں ان کی بدنصیبی (یا اعزاز؟) یہ ہے کہ ان کے قاتل ان کے اپنے ہی باپ یا بھائی ہوتے ہیں۔ آپ یہ دیکھئے کہ دنیا کتنی تیزی سے بدل رہی ہے۔ کتنی بدل چکی ہے۔ فرد کی آزادی اور اپنی زندگی پر اس کے اختیار کاتصور ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم سماجی تبدیلی کی علامت ہے۔ انٹرنیٹ اور اسمارٹ فون کے ذریعے ہماری پہنچ اس دنیا تک ہے جس کو سمجھنے اور جس کے فریب سے بچنے کے لئے اچھی تعلیم وتربیت اور مناسب معاشرتی ماحول کی ضرورت ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہمارے نوجوان جن میں خواتین بھی شامل ہیں اب دنیا اور اس کی ترغیبات سے بچ کر نہیں رہ سکتے خواہ ان کا تعلق کتنے ہی پسماندہ اور قدامت پرست گھرانے سے کیوں نہ ہو۔ ایک حد تک ہمارے معاشرے میں بھی نوجوانوں کی آزادی کو قبول کیا جاتا ہے۔ پھر بھی ، کاروکاری کے بظاہر بڑھتے ہوئے واقعات ان وحشتوں کی نشان دہی کرتے ہیں جو جہالت اور فرسودہ رسومات کے اندھیرے میں چلتی ہیں۔ کاروکاری کی لعنت دوسرے چند معاشروں میں بھی موجود ہے لیکن دوسرے کئی شعبوں کی طرح پاکستان نے اس ضمن میں بھی ایک خاص مقام حاصل کرلیا ہے۔کئی ایسی کہانیاں ہیں جو بین الاقوامی میڈیا میں بھی سنائی جاچکی ہیں۔ اور دکھ کی بات یہ ہے کہ اس کے خلاف ابھی تک کسی باقاعدہ تحریک کا آغاز نہیں ہوا۔ البتہ عدالتیں اب اپنی پسند اور خاندان کی مخالفت کی شادیوں کا زیادہ بہتر تحفظ کرتی ہیں۔ لیکن عوامی سطح پر کاروکاری کے دلخراش واقعات کے خلاف نفرت اور غیظ و غضب کے جذبات کے اظہار کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
اب بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر ہم غیرت کے نام پر کئے جانے والے قتل کے خلاف سوچ اور رویے کا ایک محاذ قائم کرسکیں اور ان واقعات میں واضح کمی واقع ہو جائے تو کیا کاروکاری کا کوئی ایسا میوزیم بنایا جاسکتا ہے جس میں محروم بچیوں کی اس جدوجہد کا احاطہ کیا جائے جو وہ اپنی زندگی پر اختیار حاصل کرنے کے لئے کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ اس میوزیم میں کاروکاری کے کئی معروف واقعات کی ڈرامائی تشکیل بھی پیش کی جاسکتی ہے۔ اس میں اصل تصاویر اور وڈیو کی نمائش بھی کی جاسکتی ہے۔ زمانہ بدلے گا تو کوئی ان واقعات پر شاید یقین بھی نہ کرے۔ یہ انسانی رشتوں کی کیسی تذلیل ہے کہ کبھی کبھی مائوں اور اکثر باپوں اور بھائیوں کی مرضی سے یا ان کے اپنے ہاتھوں ان بیٹیوں اور بہنوں کو جان سے مار دیا جاتا ہے جن کو شاید بڑے پیار اور ارمانوں سے پالا گیا ہو۔ آپ اگر حالات حاضرہ سے واقف رہتے ہیں اور اخبارات کا مطالعہ بھی کرتے ہیں تو ذہن پر زور ڈال کر دیکھئے۔ کئی واقعات یاد آجائیں گے۔ اس ہفتے بھی ایسی خبریں شائع ہوئی ہیں۔ بیشتر واقعات میں نوجوان خواتین سے محبت یا شادی کرنے والے مردوں کا بھی یہی انجام ہوتا ہے۔ میں صرف ایک واقعہ کا حوالہ دوں گا۔ وہ اس لئے کہ اس کا تصور ہی مجھے دہلا دیتا ہے اور یقین نہیں آتا کہ ایسا کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ خبر یہ شائع ہوئی کہ ایک خاتون فرزانہ اقبال کو لاہور ہائی کورٹ کے باہر ’’مئی 2014ء کی ایک صبح اس کے اپنے خاندان کے افراد نے پتھروں سے مار کر ہلاک کردیا۔ اس کا ناقابل معافی جرم بس یہ تھا کہ اس نے اپنی مرضی سے کسی سے شادی کرلی تھی۔ بتایا گیا کہ اس پر حملے کرنے والوں میں اس کا باپ ، دو بھائی اور سابق منگیتر شامل تھے۔ پتھروں سے زخمی فرزانہ کو جب اسپتال لے جایا گیا تو وہ سر کی چوٹ سے دم توڑ چکی تھی۔ عجائب خانے میں اس جگہ کا پورا ماڈل بنایا جاسکتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کی تاریخی عمارت ۔ سڑک پر ٹریفک اور پیدل چلنے والے ۔پاکستان کا ثقافتی مرکز یعنی لاہور ۔ اور ایک ایسا قتل جسے ہمارے معاشرے کی ایک تمثیل سمجھا جاسکتا ہے۔ یہ تو ایسی کہانی ہے جس پر ایک ناول لکھا جاسکتا ہے۔ ایک ایسا ناول جو ٹامس ہارڈی کے کسی ناول سے زیادہ رقت انگیز ہو۔
آپ اگر یہ پوچھیں کہ کاروکاری کے عجائب خانے کا خیال مجھے کیوں آیا تو میں آپ کو بتائوں کہ ایک ہفتے قبل امریکی صدر اوباما نے واشنگٹن میں اس عجائب خانے کا افتتاح کیا جس میں سیاہ فام امریکیوں کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جسے جدید دنیا میں ایک خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ انسانی قدریں کیسے تبدیل ہوتی ہیں اور پوری پوری قوموں اور نسلوں کو کس جہنم سے گزرنا پڑتا ہے اس کا ایک تاریک منظر ہم تاریخ کے سب سے طاقتور اور دولت مند اور جمہوری آزادیوں کے علمبردار ملک میں دیکھ سکتےہیں۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ اب افریقی/امریکی آبادی یعنی غلاموں کی اولاد کو خراج تحسین اس علاقے میں پیش کیا گیا کہ جو امریکہ کی سب سے اہم قومی عمارتوں، یادگاروں اور عجائب خانوں کا مرکز ہے۔ وہائٹ ہائوس بھی پڑوس میں ہے جس میں آج کل ایک سیاہ فام شخص رہتا ہے۔ یہ جاننا اہم ہے کہ صدر اوباما گو سیاہ فام ہیں لیکن ان کا تعلق اس نسل سے نہیں ہے جس کا سلسلہ نسب ان غلاموں سے جاملتا ہے جنہیں افریقہ سے اغوا کرکے ’’نئی دنیا‘‘ میں جانوروں کی طرح خریدا اور بیچا گیا۔نئےعجائب خانے میں اس انسانیت سوز تاریخی تجربے کی پوری طرح عکاسی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اوباما کی بیگم مشیل کے آبائو اجداد ضرور وہی غلام تھے جنہیں سرعام نیلام کیا جاتا تھا۔ اب یہ خاتون کہ جن کے پاس ہارورڈ کی قانون کی ڈگری ہے ہر صبح اس عمارت میں جاگتی ہیں جس کی تعمیر میں غلاموں نے اپنا پسینہ بہایا تھا۔ صدر اوباما نے اپنی افتتاحی تقریر میں کسی حد تک جذبات سے مغلوب ہو کر کہا کہ یہ میوزیم ایک ایسی امریکی کہانی سناتا رہے گا۔ جس میں درد کی فراوانی بھی ہے اور مسرت کی روشنی بھی۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ میوزیم یہ موقع بھی فراہم کرےتاکہ لوگ ایک دوسرے سے گفتگو کرسکیں اور زیادہ اہم یہ ہے کہ دوسرے کی بات سن سکیں اور اسے دیکھ سکیں۔ ویسے تو اس نوعیت کے عجائب خانوں کا تعلق گزرے ہوئے زمانے سے ہوتا ہے لیکن امریکہ میں نسلی امتیاز نہ صرف آج بھی زندہ ہے بلکہ اسے صدارتی امیدوار ٹرمپ کی شکل میں ایک نئی ترغیب ملی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کی سیاہ فام آبادی کا تاریخی المیہ ابھی ناتمام ہے۔ میں نےاس میوزیم میں بہت دلچسپی لی ہے اس لئے کہ میں امریکہ کے سیاہ فاموں کے احساس محرومی کو محسوس کرتا رہا ہوں۔ یہاں تو جلد کی رنگت کی وجہ سے ان کی الگ پہچان ہے لیکن ہمارے جیسے معاشروں میں بھی محرومی کی اتنی ہی یا اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ صورت حال موجود ہے۔ میرا خیال ہے کہ مقتدر طبقے کو اور ان کو جن پر یہ طبقہ حکمرانی کرتا ہے ہم صورت شکل کےا عتبار سے بھی پہچان سکتے ہیں۔ لیکن خواتین کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔
قدامت پرستی نے متوسط گھرانوں کی خواتین کے پیروں میں بیڑیاں پہنادی ہیں۔ اس سماجی تبدیلی کے آثار بھی زیادہ نمایاں ہیں جس کے بغیر ہم کسی صورت آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اور کاروکاری کئی معنوں میں ہماری شناخت بن گئی ہے۔ اس غیرانسانی رویے کا اعتراف کرنے اور اسے سمجھانے کے لئے ہم کوئی عجا ئب خانہ بنائیں یا نہ بنائیں۔ کوئی شعوری کوشش کریں یا نہ کریں اس خون خرابے کی اذیت اور اس کے نفسیاتی اثرات کو تو ہم برداشت کرتے رہیں گے۔ ایک اور مشکل ہمارے ساتھ یہ ہے کہ ہم شرمناک حقائق سے آنکھیں چرانے اور تاریخ سے چھپ کر جینے کے عادی ہیں۔ جو چیزیں دکھائی دیتی ہیںان کی طرف بھی ہم نہیں دیکھتے۔


.
تازہ ترین