• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
غیرریاستی جنگجو اور جنونی میڈیا کم وبیش ایک جیسے نتائج کا باعث بنتے ہیں۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ جس ملک نے غیرریاستی جنگجو بنائے یاانہیں سپورٹ کیا تومنطقی نتیجے کے طور پر وہ اسی ملک کیلئے مصیبت بن جاتے ہیں۔ یہی نتیجہ کسی بھی ملک کے میڈیا کو جنونی بنانے اور اسے جنگی فضا کیلئے استعمال کرنے کا نکلتا ہے۔ تاہم غنیمت سے مصیبت بن جانے کا دونوں کا عمل اور میکنزم مختلف ہے۔ میڈیا برائے نام کتنا ہی آزاد کیوں نہ ہو، بنیادی طور پر اپنی اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ ہی ہوا کرتا ہے۔ پہلے ریاستی طاقتور ادارے میڈیا کو ایک خاص مقاصد کیلئے ، کوئی خاص پٹی پڑھادیتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے رائے عامہ اس طرف چل پڑتی ہے اور پھر اس کی بنیاد پر ایک جذباتی فضاپیدا ہوجاتی ہے ۔ آخر میں ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہی طاقتور ریاستی ادارے یا حکومتیں خود اس رائے عامہ کی غلام بن جاتی ہیں۔ پھر وہ نہ چاہتے ہوئے اس فضا کے آگے مجبور ہوتی ہیں اوران کا بنایا ہوا ، اپنابت انہیں ڈکٹیٹ کرنے لگ جاتا ہے۔ مثلاً پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنااتحادی خود امریکی اسٹیبلشمنٹ نے بنا رکھا تھا لیکن بعض حوالوں سے اسے زیردبائو لانے کیلئے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے میڈیا کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا۔ رفتہ رفتہ امریکی میڈیا نے ملک کے اندر ایسی پاکستان مخالف فضا بنادی کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کیلئے پاکستان کے ساتھ تعاون مشکل ہوگیا ۔ یہی کچھ سعودی عرب کے معاملے میں ہوا۔ بعض معاملات میں زیردبائو لانے کیلئے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے میڈیا کوسعودی عرب کے خلاف استعمال کیا۔ سعودی عرب کے خلاف فضا ایسی بن گئی کہ اب صدر اوباما نہیں چاہتے کہ امریکی عدالتوں میں سعودی حکومت کے خلاف نائن الیون کی بنیاد پر مقدمات بنیں کیونکہ اس صورت میں سعودی عرب نے امریکی بینکوں سے اپنی دولت نکالنے کی دھمکی دی ہے لیکن میڈیا کی بنائی ہوئی فضا کے سامنے امریکی پارلیمنٹیرین مجبور ہیں اور ان کے آگے امریکی صدر اوباما کو جھکنا پڑرہا ہے ۔ پاکستان کے اندر امریکہ کے ساتھ بارگیننگ پوزیشن کو مضبوط بنانے کیلئے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستانی میڈیا کو ڈرون کے خلاف استعمال کیا اور بعض سیاسی جماعتوں کو بھی میدان میں اتارا ۔ جب ڈرون حملوں کے خلاف یہ مہم ایک حد سے بڑھ گئی تو خود اسی اسٹیبلشمنٹ کیلئے وبال جان بن گئی ۔ بھارتی ریاستی اداروں نے اپنے میڈیا کو لمبے عرصے سے اس کام پر لگا رکھا ہے کہ وہ ملک کے اندر توکیا دنیا کے ہر کونے میں ہونے والے ہر غلط کام کو پاکستان سے منسوب کرے ۔ پھر اسے یہ پٹی پڑھارکھی ہے کہ ’’شائننگ انڈیا‘‘ جیسے دل خوش کن نعروں کا سہارا لے کر بھارت کو امریکہ کی طرح عالمی طاقت ثابت کردے ۔ چنانچہ پہلے خود میڈیا ایک خودساختہ طاقت کے زعم میں مبتلا ہوگیا اور پھر عوام کو اس میں مبتلا کیا۔چنانچہ دہلی میں سائیکل رکشہ چلانے والے اور ممبئی کی گندگی کے ڈھیروں پر راتیں گزارنے والے بھارتی کو بھی اپنا آپ سپرپاور کا شہری نظر آتا ہے ۔بھارتی میڈیا پر ارناب گوسوامی جیسے بڑھک باز چھا گئے جو نریندرمودی جیسے ڈرامہ بازوں کواسٹیٹس مین کے طو رپر پیش کرنے لگے ۔ انہوں نے اپنے عوام کے ذہنوں میں یہ بٹھادیا ہے کہ ان کا ملک امریکہ بن گیا ہے اور جس وقت چاہے پاکستان جیسے ملکوں کو سبق سکھا سکتا ہے ۔ چنانچہ جب بھی اڑی یا پٹھان کوٹ جیسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو بھارتی جنونی میڈیا جنگجویانہ فضا پیدا کرکے ، عوام کے جذبات کو بھڑکانے اور حکمرانوں کوغیرت دلانے میں لگ جاتا ہے ۔ لیکن زمینی حقائق تو کچھ اور ہیں۔ زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت امریکہ ہے اور نہ پاکستان میانمار ۔ زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان اب نہ صرف ایٹمی قوت ہے بلکہ اس کے ایٹمی ہتھیار بعض حوالوں سے بھارت سے برتر بھی ہیں۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میزائل ٹیکنالوجی میں اس حد تک آگے جاچکا ہے کہ بھارت کے کسی بھی شہر کو نشانہ بناسکتا ہے ۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی فوج گزشتہ پندرہ سال سے حالت جنگ میں ہے اوروہ معیشت پر پڑنے والے ان منفی اثرات کا عرصہ دراز سے سامنا کررہا ہے جن کا کسی ملک کو جنگ کی صورت میں سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہندوستانی معیشت کیلئے جنگ ایک ایسا دھچکا ہوگا کہ اس سے اس کے عالمی طاقت کے تو کیا خطے کی طاقت بننے کا خواب بھی چکنا چور ہوجائے گا۔ چنانچہ اب ایک طرف میڈیا اور رائے عامہ (جسے خود بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے جنونی بنا دیا ہے ) کا بے تہاشہ دبائو ہے اور دوسری طرف زمینی حقائق اور جنگ کے بھیانک نتائج ہیں۔ چنانچہ بھارت کی ڈرامہ باز قیادت ، ڈراموں پر اتر آئی تاکہ اپنے ہی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک سکے۔ گزشتہ روز کنٹرول لائن پر فائرنگ کرکے اس کے فوج کے ڈی جی ملٹری آپریشن نے اعلان کیا کہ پاکستانی حدود میں گھس کر اس نے سرجیکل حملے کئے اور تیس سے چالیس کے قریب ان لوگوں کو نشانہ بنایا جو ان کے بقول مقبوضہ کشمیر میں کارروائی کی خاطر اندر آنے کی تیاری کررہے تھے ۔ پھر کیا تھا بھارت کا جنونی میڈیا جشن منانے لگا لیکن اپنی فعالیت کے زعم میں مبتلا میڈیا نے اپنی حکومت اور فوج کے اس دعوے پر وہ بنیادی سوالات بھی نہیں اٹھائے کہ جو ایک تیسرے درجے کے صحافی کے ذہن میں بھی ضرور آتے ہیں ۔ پہلے دعویٰ کیا گیا تھاکہ ہیلی کاپٹر پاکستانی سرحدوں میں گھسے تھے لیکن یہ نہیں پوچھا گیا کہ بھارت نے وہ کونسی ٹیکنالوجی استعمال کی کہ جس کا پاکستانی ریڈارز کو کوئی علم نہ ہوسکا۔ اسی طرح ہر سرجیکل اسٹرائیک کی ویڈیو تیار ہوتی ہے لیکن بھارتی میڈیا نے یہ نہیں پوچھا کہ امریکہ کی نقالی کرنے والے ذرا وہ فوٹیج تو دکھادیں کہ جس میں پاکستانی حدود کے اندر کارروائی دکھائی گئی ہو۔ امریکہ نے ایبٹ آبادیا پھر اس سے پہلے خوست میں سرجیکل اسٹرائیک کی تھی تو نشانہ بننے والے بھی معلوم تھے اور مقامات بھی ۔ بھارتی میڈیا نے جشن منانے سے پہلے اپنے حکام سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ ذرا اس مقام کا نام تو بتائیے کہ جسے انہوں نے سرجیکل اسٹرائیک کا نشانہ بنایا۔ دھمکیاں تو دی جارہی تھیں کہ مریدکے میں حافظ سعید کو یا پھر دائود ابراہیم کوسرجیکل اسٹرائیک میں نشانہ بنایا جائے گا لیکن بھارتی جنونی میڈیا نے یہ تک نہیں پوچھا کہ ان دونوں شخصیات یا ماضی میں اعلان کردہ مقامات کو نشانہ بنانے کی بجائے اس مقام کو کیوں نشانہ بنایا گیا کہ جس کو خود پاکستانی بھی ڈھونڈتے پھررہے ہیں ۔ جنونیت کی بھی حد ہوتی ہے ۔ بھارتی ڈرامہ بازوں نے ڈرامہ کیلئے نیا اسکرپٹ بھی تخلیق نہیں کیا بلکہ ایک سال قبل میانمار کی سرحد پر پیش کئے گئے ڈرامے کی ٹیپ دوبارہ چلا دی ۔ حالانکہ بھارتی صرف فلمیں اور ڈرامے بنانے اور ان کےا سکرپٹ لکھنے کے ہی ماہر ہیں۔ کسی کو یقین نہ آئے تو جون (2015) کے پہلے پندرہ روز کے بھارتی اخبارات ملاحظہ کرلیں۔ ہوا یوں کہ ناگاباغیوں(نیشنلسٹ سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ) نے ایک کارروائی میں اٹھارہ بھارتی فوجیوں کو مار دیا ۔ ناگاباغی میانمار کے سرحدی علاقوں میں سرگرم عمل ہیں اور میانمار کے بھارت سے متصل علاقے کو بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔جون کے پہلے عشرے میں بھارتی حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس کی فوج نے میانمار کے اندر سرجیکل اسٹرائیک کرکے پینتیس سے چالیس ناگاباغیوں کو ہلاک کرکے اپنے اٹھارہ فوجیوں کی ہلاکت کا بدلہ لے لیا۔ تب بھی یہ ڈرامہ بنایا گیا کہ سرجیکل آپریشن کی خاطر بھارتی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دوول نے غیرملکی دورہ ملتوی کیا جبکہ وزیراعظم نریندرمودی کو بنگلہ دیش کا دورہ مختصر کرنا پڑا لیکن کسی نے کارروائی کی فوٹیج دیکھی اور نہ مبینہ طور پر ہلاک ہونیوالے ناگا باغیوں کی لاشیں۔ دوسری طرف میانمار کے حکام اسی طرح سرجیکل اسٹرائیک کے نشانات ڈھونڈتے رہے جس طرح ان دنوں پاکستانی تلاش کررہے ہیں ۔ 10 جون 2015 ءکا انڈین ایکسپریس میرے سامنے ہے جسکی سب سے بڑی سرخی ہے کہ میانمار کے صدارتی ترجمان نے واضح کیاہے کہ بھارتی فوج نے میانمار کی حدود کے اندر کوئی سرجیکل اسٹرائیک نہیں کی اور اس حوالے سے ہندوستان کا دعویٰ غلط اور جھوٹ ہے ۔ میانمار پاکستان کی طرح حریف نہیں بلکہ ہندوستان کا تابعدار ملک ہے لیکن بھارتی حکمران جھوٹ اس طرح بولتے ہیں کہ باجگزار ملک بھی تردید پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ اب ڈرامہ یا اتفاق دیکھ لیجئے کہ ناگا باغیوں نے بھی اٹھارہ بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا تھا اور اڑی حملے کے حوالے سے بھی بھارتی حکام کا یہ دعویٰ ہے کہ اس کے اٹھارہ فوجی ہلاک ہوئے ۔
ناگا باغیوں کی کارروائی کا جواب بھی مبینہ سرجیکل اسٹرائیک میں دیا گیا اور اڑی کی مبینہ کارروائی کا جواب بھی مبینہ سرجیکل اسٹرائیک کی صورت میں دیا گیا۔ بھارتی دعوے کے مطابق میانمار کے سرجیکل اسٹرائیک میں بھی تیس سے چالیس ناگا باغی ہلاک ہوئے تھے اور اس پاکستانی حدود میں اس کے مبینہ سرجیکل اسٹرائیک میں بھی تیس سے چالیس مجاہدین کو نشانہ بنایا گیا ۔کیا انڈین میڈیا میں کوئی بھی جینوئن صحافی نہیں بچاکہ جواپنے جنونی حکمرانوں سے کہہ سکے کہ ارے جنونیو! اگر ڈرامہ ہی کرنا تھا تو کوئی نیا اسکرپٹ تو لکھ دیتے ۔ ایسا تو نہیں ہوسکا لیکن کاش دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار ملک کی پارلیمنٹ میں کوئی خواجہ آصف بن کر نریندرمودی اور اجیت دوول کو کہہ سکے کہ ’’کوئی شرم ہوتی ہے ، کوئی حیا ہوتی ہے اور کوئی ریاستی اخلاقیات ہوتی ہیں۔


.
تازہ ترین