• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین پاکستان اقتصادی راہداری پورے خطے کیلئے گیم چینجر ہے، اِسکی تصدیق روسی محقق ڈاکٹر نتالیا نے کراچی میں ہونے والی ایک کانفرنس میں اپنے مقالے میں بھی کردی، یہ بھارت اور امریکہ کو پسند نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت امریکہ کی شہ پر برصغیر پاک و ہند میں جنگی جنون کو ہوا دے رہا ہے، وہ پاکستان پر حملہ کرنے کی بات کررہا ہے، بھارت کے سابق تین اسٹار جنرل پناگ نے پاکستان کے خلاف چوتھی نسل کی جنگ4GWکا مشورہ دیا ہے، یہ ریاست اور غیرریاستی عناصر کے درمیان جنگ مانی جاتی ہے۔ پھر پاکستان کو تنہا کرنے کی بات تکرار سے کی جارہی ہے، کیونکہ یہ وہ طریقہ ہے جس سے بنگلہ دیش بنایا گیا تھا مگر پاکستان کب تنہا ہے، اس کے ساتھ چین، روس، مسلم ممالک ترکی، سعودی عرب اور دیگر ممالک کھڑے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ایران نے اپنے چار بحری جہاز پاکستان بحریہ کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں کیلئے بھیج دیئے ہیں، اِسکی اہمیت اس لئے ہے کہ بھارت ایران کو اپنے کیمپ کا حصہ سمجھتا تھا مگر منظرنامہ اس وجہ سے تبدیل ہوا کہ امریکہ کے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کے پاس 200 ایٹمی ہتھیار ہیں، اُن سب کا رُخ ایران کی طرف ہے، اس کے ساتھ امریکہ ایران اور حزب اللہ کے درمیان زمینی رابطہ منقطع کرنا چاہتا ہے اور یینون منصوبے کے تحت اگر عظیم تر بلوچستان بنائے تو ہماری گوادر بندرگاہ اور اُن کی چاہ بہار اُسکی نذر ہوجائے گی۔ ایران اور پاکستان کی مشترکہ بحری مشقوں سے بھارت کو دوسری سفارتی ناکامی ہوئی ہے، پہلی ناکامی اس وقت ہوئی جب روس نے بھارت کی تمام تر خوشامد اور دھمکیوں کے باوجود اپنا 200 فوجیوں پر مشتمل دستہ پاکستان کے قیام کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان کی بری افواج کے ساتھ مشقوں کیلئے بھیجا۔ جو گلگت بلتستان اور فاٹا میں مشترکہ مشقوں میں حصہ لے گا، اس طرح روس نے بھارت کا یہ دعویٰ بھی مسترد کردیا کہ گلگت بلتستان متنازع علاقے ہیں، اس لئے وہاں جنگی مشقیں نہ کی جائیں، بھارت نےاُوڑی کا ڈرامہ کرکے جنگی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ روس جنگ کے خوف سے پاکستان کا رُخ نہ کرے۔ روس نے اُوڑی واقعہ کو پانی کا بلبلہ سمجھا، اُس کو معلوم تھا کہ یہ واقعہ کس نے کیا، کیونکہ اُس کے کئی سیٹلائٹ اِس خطے کو اپنی نظروں میں رکھے ہوئے ہیں، روس کو علم یہ بھی تھا کہ بھارت یہ جنگی فضااِن مشقوں کو موخر کرانے کیلئے پیدا کررہا ہے، اسلئے اس نے اُس کو سنجیدہ نہیں لیا، اس کے بعد بھارت کے ایک سابق سفارتکارنے لکھا کہ ہمارا مودی بادشاہ اب چھپ نہیں سکتا اس لئے کہ اُس کو چھپنے کیلئے کوئی جگہ نہیں مل رہی ۔ روس نے اسطرح یہ پیغام بھی دیا ہے کہ روس پاکستان کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلق داری مستحکم کرنے جارہا ہے، روس نے یہ پیغام بھی دیا کہ روس اب جیوپولیٹیکل میدان میں بھارت کی حمایت کیلئے دستیاب نہیں ہے، روس نے بھارت کی تبدیل شدہ پالیسی کہ وہ امریکہ کے ساتھ جڑ گیا ہےکو رد کردیا ہے۔ بھارت نے امریکہ کے ساتھ لاجسٹک سپورٹ کا اور بحری جہازوں کے درمیان مواصلاتی رابطے کے دو معاہدے کر لئے ہیں، جس کے تحت دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی بندرگاہ استعمال کرنے کا اختیار ہوگا، اب بھارت امریکی بندرگاہیں کیا استعمال کرے گا، البتہ امریکہ بھارت کی بندرگاہوں کو خوب استعمال کرے گا، بھارت ہمیشہ سے امریکہ اور روس کی کشتیوں میں سوار رہتا تھا، پہلی مرتبہ وہ اب امریکی کشتی میں سوار ہوا ہے، اُس کی پالیسی یک رُخی ہوگئی ہے۔ بھارت کا امیج بہتر ہونے کی بجائے خراب ہوگیا ہے اور پانی کے بلبلے کی طرح بیٹھ گیا ہے۔ بھارت کے امن پسند لوگوں نے سکون کا سانس لیا کہ جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے کیونکہ اگر جنگ کا خطرہ ہوتا تو روس اپنی مسلح افواج کا دستہ کیوں بھیجتا۔ اس طرح ایران کے صدر حسن روحانی نے 21 ستمبر 2016ء کو پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف سے ملاقات کی اور ایران نے چین پاکستان اقتصادی راہداری میں دلچسپی کا اظہار کیا، انہوں نے چاہ بہار گوادر سے جوڑنے کی بات کی اور اب ایران نے چار بحری جہاز پاکستانی بحریہ کے ساتھ مشترکہ مشقوں میں حصہ لینے کیلئے بھیج دیئے ہیں۔ اسطرح دونوں ممالک یعنی روس اور ایران نے پاکستان کو اپنا اسٹرٹیجک ساتھی قرار دینے کی طرف سفر شروع کردیا ہے اور یوں انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ پاکستان کو ایسا ملک نہیں سمجھتے جو دہشت گردی ایکسپورٹ کرتا ہو، وہ اُوڑی حملے کے بھارتی موقف کو درست نہیں سمجھتے۔ ایران نے واضح کردیا کہ بھارت بلوچستان میں مداخلت بند کرے کیونکہ اس سے ایران کے مفاد پر ضرب پڑتی ہے، ایران موساد، سی آئی اے اور ایم آئی 6 کی چیرہ دستیوں کو تین عشروں سے ناکام بناتا رہا ہے اور اب وہ ’’را‘‘ کی سرگرمیوں کو پاکستان کے ساتھ مل کر ناکام بنانے کی کوشش کرے گا۔اس طرح پاکستان تنہا نہیں بلکہ بھارت تنہا ہوا ہے، اُس کے اپنے ساتھی، اتحادی اُس کا کیمپ چھوڑ کر پاکستان سے آملے ہیں، جس کا اعتراف بھارت کی انتہاپسند جماعت آر ایس ایس نے کرلیا ہے کہ پاکستان نہیں بھارت تنہا ہوگیا ہے۔ حالات جس تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں اسی تیزی کے ساتھ بہت سے ملکوں کی پالیسیاں بھی تبدیل ہوں گی۔ جنگی فضا کو وقتی طور پر بھارت اپنے حق میں کرنے میں ناکام ہوا ہے اور اب اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آیا ہے۔ اس نے پاکستان میں سارک سربراہی کانفرنس میں شریک ہونے سے انکار کردیا ہے، وہ کہتا ہے کہ بھارت پاکستان کا پانی بند کردے گا۔ یوں وہ امریکہ کا آلہ کار بن کر آبی جنگ کی امریکہ کی خواہش پوری کررہا ہے کیونکہ پاکستان نے برملا اعلان کردیا ہے کہ اگر آبی جارحیت ہوئی تو جنگ چھڑ جائے گی۔ آبی معاہدہ عالمی طاقتوں کی احیاء اور ضمانت پر ہوا تھا، بھارت یہ کام یکطرفہ طور پر نہیں کرسکتا۔ بھارت کے انتہاپسند ذہن کے حامل وزیراعظم نریندر مودی کہتے ہیں کہ پاکستان ہم سے غربت کو ختم کرنے میں مقابلہ کرے۔ اس میں تو ہم بھارت سے کہیں بہتر ہیں، ہمارے لاکھوں افراد سڑکوں پر نہیں سوتے، بھارت یہ سب کچھ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے کررہا ہے۔
بھارت کو فی الحال ہزیمت پر ہزیمت اٹھانا پڑ رہی ہے، بھارت کے کالم نگار اور صحافی یہ لکھ رہے ہیں کہ مودی نے جنگ کی فضا قائم رکھی تو اُسکی صنعتی ترقی متاثر ہوگی اور جنگ کے خطرے کی موجودگی میں کوئی سیاح بھارت کا رُخ نہیں کرے گا۔ مغرب کے دانشور اسٹیفن کوہن اور دوسرے امریکی کالم نگار پاکستان سے چھیڑچھاڑ کو ایٹمی جنگ کا الارم سمجھتے ہیں اور نریندر مودی کو اِس قابل نہیں سمجھتے کہ وہ اِس سلگتی ہوئی آگ کو بجھانے کی صلاحیت رکھتا ہو، امریکہ اس وقت اِس آگ کو ایک خاص حدت تک بھڑکائے گا اور پھر وہ اُس کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش اس وقت کرے گا جب بھارت اُسکی مکمل گرفت میں آجائے، یعنی وہ اس کا دست نگر بن جائے، بھارت کی بحریہ تو امریکہ کی اس طرح بن گئی ہے کہ بھارت کے ہر جہاز پر امریکہ نے اپنے مواصلاتی آلات لگا دیئے ہیں۔ جہاں تک کشمیر کی آزادی کا معاملہ ہے تو اس باب میں انسانیت دوست ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کشمیر اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ بھارت کے کنٹرول سے باہر ہوگئی ہے۔
اس کا سدا کا حمایتی روس اس کی حمایت کیلئے دستیاب نہیں ہے اور نئے بنے دوست ایران نے بھی اُس کو ناامید کیا ہے۔ یہ ہزیمت بھارت کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ یاد رہے کہ دُنیا کے پانچ ایٹمی فلیش پوائنٹ میں سے کشمیر ایک فلیش پوائنٹ ہے، اسلئے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے عوام، دانشور اور سفارتکار نریندر مودی کو سمجھائیں کہ وہ انسانیت کو تباہ کرنے میں اپنی توانائی خرچ نہ کرے بلکہ پاکستان کے ساتھ پُرامن رہنے کی سبیل نکالے۔


.
تازہ ترین