• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بھارت سے جو بن پڑتا ہے کر دیکھے
سارک سربراہ کانفرنس ملتوی نہیں منسوخ کردی گئی، تنظیم کا مستقبل خطرے میں پڑگیا، تجزیہ کار نے بجا کہا کہ سارک سربراہ کانفرنس کی منسوخی اس تنظیم کو ختم کرنے کی سازش ہے۔ تکلیف یہ ہے کہ کانفرنس پاکستان میں کیوں منعقد ہو اور پاکستان سربرآوردہ کیوں بنے۔ بھارت چاہتا ہے کہ پاکستان کسی فورم پر اپنا موقف پیش نہ کرسکے مگر چوراہے میں پڑے سنڈاس کی بو تو بہرحال پھیل کر رہے گی۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کو چھپانے اور پاکستان کو بدنام کرنے کیلئے انتہا پسند ہندوئوں کی حکومت ہر ممکن ہتھکنڈے اپنا رہی ہے اور دھمکیوں کے ذریعے ایک نفسیاتی یلغار شروع کر رکھی ہے مگر؎
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کرچکا ہے تو امتحاں ہمارا
افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان بے چارے تو ’’کسی‘‘ کے حکم پر چل رہے ہیں۔ ان سے بھی اپنے مسائل سامنے رکھنے کا فورم چھین لیا گیا ہے۔ جلد ہی یہ ممالک بھی احساس کرلیں گے کہ انہوں نے ہندو کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اپنے جوڑ ہی تڑوا لئے۔ کشمیریوں پر ظلم و ستم کی رفتار بہت تیز کردی گئی ہے اور اہل کشمیر نے بھی سر سے کفن باندھ لئے ہیں۔ ان کی آواز دبانے کے لئے وہ جنگ کی سی فضا قائم کررہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر متنازع ہے، اس کو کئی بار بھارت تسلیم کرچکا ہے۔ ا ٓخر بھارت نے کب تک مسئلہ کشمیر پر پائوں رکھ کر بیٹھے رہنا ہے ، ایک روز شہیدوں کا لہو رنگ لائے گا اور اسے مذاکرات کی ٹیبل پر کشمیر ، کشمیریوں کے حوالے کرنا ہوگا۔ باقی رہی بات سارک کانفرنس کی منسوخی سے متعلق تو اس غلطی کا ہندو حکمرانوں کو خمیازہ کسی نہ کسی صورت میں بھگتنا ہوگا۔ پاکستان پر جارحیت کا اب ہندو سوچ بھی نہیں سکتا۔
٭٭٭٭٭٭
چلے ہیں تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
رائیونڈ مارچ،قافلے چل پڑے کل تاریخ رقم کریں گے۔ عمران خان، شہر کا طوفانی دورہ؎
چلے ہیں تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ
ہوجائے گی تاریخ بھی رقم آہستہ آہستہ
تاریخ میں اور بھی کئی روشن باب رقم ہیں، ایک باب وزیر اعظم بنے بغیر عمران خان کی کامیاب پسپائیوں کا بھی رقم ہوگا اور اس طرح ہماری مشکلات حل ہوں نہ ہوں ان میں رکاوٹ بننے والوں کے مسائل حل ہوجائینگے۔ابھی تک رائیونڈ پر یلغار کے لئے خان صاحب کو صرف فرد واحد پارٹی والے شیخ کا ساتھ حاصل ہوسکا ہے۔ لگتا ہے کہ معرکہ سر کرنے کا سارا کریڈٹ وہ تنہا ہی لے جائیں گے۔ انہوں نے عوام کو شامل کرنے کے لئے لاہور کا ایک طوفانی دورہ بھی کیا ہے۔ ممکن ہے تین چار سرپھرے ان کے قافلے میں شامل ہوجائیں گے۔ ملک جن حالات سے گزر رہا ہے ان کا تقاضا ہے کہ عمران خان موقع سے فائدہ اٹھائیں اور آزاد رائیونڈ کو مقبوضہ رائیونڈ بنادیں،مگر یہ سب تو باتیں ہیں اور ایسی باتیں کرنے میں حرج ہی کیا جو تشنئہ اقتدار خان اعظم کو لمحہ بھر کے لئے خوش کردیں۔ وزیر اعظم نہ بن پائے تو کیا ہوا خان اعظم کا خطاب تو مل گیا، ابھی اس سے جی بہلائیں۔ وزیر اعظم بننے کا ایک طریقہ ہے، اچھا ہوگا کہ قریشی صاحب ان کو سمجھادیں، وزیر اعظم ووٹ کے ذریعے آتا ہے سڑک کے راستے نہیں۔30ستمبر آکر گزر جائیگا، اس کے بعد عمران خان کا پورا ملک سر پر اٹھانے کا پروگرام ہے اسی شور و غوغا میں نواز شریف اپنی مدت پوری کرکے جاتی امرا ءچلے جائیں گے پھر آئندہ انتخابات کی تیاریاں ہوں گی۔ تحریک انصاف کے ساتھ عوام پورا پورا انصاف کریں گے ان کے کارناموں اور فتوحات کی تاریخ پڑھیں گے اور ووٹ نہ جانے کس کو دیں گے لیکن تاریخ میں یہ جملہ ضرور لکھا جائے گا کہ خان صاحب نے اپنا سیاسی مستقبل تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
٭٭٭٭٭٭
اتنا نہ اپنے جامے سے باہر نکل کے چل!
چیف جسٹس سپریم کورٹ، پیسے جمع کراکے کرپٹ افراد بری ہوسکتے ہیں تو چوروں کو بھی چھوڑیں، پلی بارگین قانون دیگر جرائم تک پھیلا کر تمام جیلیں خالی کردی جائیں۔ جن کرپٹ افراد کو پیسے ادا کرنے کے عوض بری کردیا گیا ان کی صورتحال غالب کے اس شعر میں درج ہے؎
نسبت ہے ان بتوں کو بھی کعبے سے دور کی
گو واں نہیں پر واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کرپشن کا خاتمہ مطلوب و مقصود حکومت ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی بھی کرپشن کرتا ہے تو اپنی بلا سے کرے۔ ان میں کچھ رقم خزانے میں جمع کرادے، اسے کچھ نہیں کہا جائے گا، کوئی مقدمہ نہیں چلے گا ،کچھ سزا نہیں ملے گی، اس طرح ایک طرف کرپشن ترقی کرے گی دوسری جانب ملک معاشی ترقی کرے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ کرپشن کا پیسہ بھی قوم سے لوٹا جاتا ہے اور خزانے میں خزانے کی دولت ہی جمع کرادی جاتی ہے اور جہاں تک جیلیں بھگتنے والے مجرموں کا تعلق ہے تو یہ ٹھیک ہے کہ حکومت ان کے جرموں کی قیمت لگا کر قومی خزانے میں مطلوبہ رقم جمع کرانے کے بدلے ان کو رہا کردے۔ اس طرح جیلیں خود بخود خالی ہوجائیں گی اور جیل خانہ جات کی مد میں جو خطیر سرمایہ حکومت کو خرچ کرنا پڑتاہے وہ بھی بچ رہے گا۔خوشحالی لانے کیلئے یہ کچھ تو کرنا پڑتا ہے۔ عدالت عظمیٰ ایک عرصے سے اپنے منصب عدل سے حکومت کو بروقت کررہی ہے لیکن کرپٹ ا فراد کی پشتیانی مسلسل جاری ہے اور چور دروازوں سے چہیتوں کو بچایا جارہا ہے، اگر یہاں کی سب سے بڑی عدالت کا ایک بڑا مقام ہےاور قوم حیران ہے کہ آخر سپریم کورٹ کے فیصلوں پر کیوں توجہ نہیں دی جاتی۔ پچھلی حکومت کے دو وزراء اعظم کو سپریم کورٹ ہی نے گھر بھیجا اور گزشتہ حکومت نے بلا تاخیر دونوں فیصلوں کو تسلیم کیا یہی جمہوری آئینی عدالت ہے جس کا پاس موجودہ حکمرانوں کو بھی کرنا چاہئے۔
٭٭٭٭٭٭
چنگاری کوئی بھڑکے
٭...سابق گورنر پنجاب احمد محمود، حکومت کے خاتمے کا وقت قریب۔
وہ تو پہلے ہی قریب آچکا ہے ،ڈیڑھ سال بھی مخدوم صاحب گزارے گی۔
٭...گھر گھر تعلیم کا دیپ جلے گا۔
بجلی ہوگی تو تعلیم ہوگی۔
٭...آبی آلودگی ختم کرنے کا کوئی میگا پروجیکٹ شروع نہ ہوسکا بڑے شہروں میں پینے کا مضر صحت پانی۔
ایک پانی بچا تھا اس میں بھی ملاوٹ!
٭...عمران خان، نواز شریف کو خطرہ ہوا تو دوبارہ سپریم کورٹ پر حملہ کرسکتے ہیں۔
خطرہ ہوگا تو دیکھیں گے، خان صاحب کو یہ الہام کیسے ہوا؟
٭...کسانوں کا دھرنا ختم، 5میں سے تین مطالبات تسلیم۔
فکر نہ کریں باقی دو بھی ہوجائینگے، کسان ہماری ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
٭...شہباز شریف، پاکستان غربت کے خلاف جنگ جلد جیتے گا۔
بھارت ہمارے خلاف اور ہم غربت کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتے۔
٭...وزیر اعظم ، بھارت سندھ طاس معاہدے سے الگ نہیں ہوسکتا۔
مگر وہ خلاف ورزی تو کرسکتا ہے اور کررہا ہے۔
٭...عوامی رکشہ یونین نے ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ مسترد کردیا۔
یہ ٹھیکہ جن کو دیا گیا ہے اس سے مطالبہ کریں کہ اتنا منافع ہضم نہیں ہوتا۔



.
تازہ ترین