• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے کچھ اکابرین کو کوٹہ سسٹم پر شدید اعتراض ہے؟ اصولی طور پر تو یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں کوٹہ سسٹم قسم کی کوئی ’’رکاوٹ‘‘ نہیں ہونی چاہئے‘ اور میرٹ ہونا چاہئے۔ان مہربانوں کو خاص طور پر اس بات پر اعتراض ہے کہ سندھ ہی کے لئے کوٹہ کیوں مقرر کیا گیا ہے‘ پتہ نہیں ان مہربان اکابرین کو یہ پتہ ہے کہ نہیں کہ اس وقت سندھ کے اندر بھی ایک مضبوط رائے ابھری ہے کہ وہ کوٹہ کے تحت ملازمتوں میں آنا نہیں چاہتے‘ ان کا کہنا ہے کہ وہ طعنہ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ یہ طعنے سننے کی بجائے ’’بیک ورڈ‘‘ رہنا پسند کریں گے‘ یہ تو ایک جذباتی بات ہوئی مگر میری ملک کے ہر محب وطن اور خاص طور پر متوازن سوچ رکھنے والے اکابرین سے درخواست ہے کہ وہ ذرا اس بات پر غور کریں کہ کیا پاکستان کے مختلف علاقے ایک سے ترقی یافتہ ہیں؟ آیئے سندھ کو چھوڑ کر پاکستان کے باقی علاقوں کا ذکر کریں‘ کیا فاٹا پاکستان کا حصہ نہیں ہے؟ کیا فاٹا میں تعلیمی و دیگر سہولتیں کراچی‘ لاہور‘ پنڈی تو کیا پشاور میں دستیاب تعلیمی و دیگر سہولتوں جتنی بھی ہیں؟ کیا فاٹا کے عوام کا حق نہیں بنتا کہ انہیں بھی وہ سب تعلیمی‘ صنعتی و دیگر ترقی کی سہولتیں حاصل ہوں جو اوپر ذکر کئے گئے شہروں میں دستیاب ہیں‘ یہی سوال کے پی کے علاقوں مثلاً سوات‘ کاغان اور دیگر بیک ورڈ علاقے جو بڑے شہروں سے دور ہیں کے عوام بھی کرسکتے ہیں۔ اسی طرح یہی سوال پنجاب کے سرائیکی بیلٹ و دیگر ایسے علاقے جو لاہور اور پنڈی سے دور ہیں کے عوام کرنے میں حق بجانب نہیں ہیں؟ کیا ان علاقوں کے لوگ ہمیشہ پاکستان کے دوسرے اور تیسرے نمبر کے شہری ہی رہیں گے؟ میرا خیال ہے کہ ان سارے بیک ورڈ علاقوں میں بھی وہ سب تعلیمی و دیگر سہولتیں فراہم کی جائیں‘ اب میں سندھ کا ذکر کرتا ہوں‘ سندھ کے اندر چند بڑے شہروں سے دور دیگر شہر اور دیہی علاقوں میں بھی اس سطح کی تعلیمی و دیگر سہولتیں فراہم کی جائیں جو سندھ کے ان چند بڑے شہروں اور خاص طور پر کراچی میں ہیں تو ان علاقوں کا کوئی پاگل شخص ہی کوٹہ سسٹم کامطالبہ کرے گا مگر کیا ایسا ہے؟ جب میں کراچی کا ذکر کرتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کراچی کی ترقی نہیں چاہتے‘ آج جو ہمارے ’’مہربان‘‘ کراچی کے چیمپئن بنے ہوئے ہیں ان کو یہ علم ہی نہیں کہ کراچی سندھ کا فقط ایک شہر ہی نہیں مگر سندھ کا جگر اور آنکھ کا تارا ہے‘ ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ سندھ نے کراچی کو اپنے خون جگر سے سینچا ہے‘ ایک وقت تھا جب کراچی ملاحوں کی ایک چھوٹی بستی تھا‘ اس کی سڑکوں کی تعمیرو دیگر سہولتوں کے لئے سندھ کی کچھ امیر میونسپلٹیز مثلاً کیٹی بندر کی میونسپلٹی کراچی کو گرانٹ دیتی تھیں‘ کیا ہمارے ان کرم فرمائوں کو یہ پتہ ہے کہ کراچی کے تحفظ کے لئے ایک میر بحر خاندان کے چھ بھائیوں نے ایک مگرمچھ سے لڑتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا‘ اس کے بعد ان کاسب سے چھوٹابھائی ’’مورڑو میر بحر‘‘ جو ایک ذہین اور بہادر شخص تھا ایک مخصوص پنجرہ بنواکر سمندر میں داخل ہوا اور خونخوار لڑائی کے بعد اس مگرمچھ کو ختم کرکے باہر نکلا‘ اس کے بعد یہ مچھیروں کی بستی بڑھنے لگی اور آہستہ آہستہ ایک شہر میں تبدیل ہونے لگی‘ مگر ہم نے اس بہادر مورڑو کا کیا حشر کیا‘ اس کی قبر کو ہی مٹا دیا‘ کیا کراچی کے ہمارے مہربانوں کو کبھی اس بات کا احساس ہوا‘ بات یہ ہے کہ سندھ کے ان دو تین شہروں کے علاوہ باقی سندھ کی کیا حالت ہے‘ تعلیم کی کیا حالت ہے‘ پینے کے لئے استعمال ہونے والے پانی کا کیا معیار ہے‘ ان علاقوں میں واٹر سپلائی اور گندے پانی کی نکاسی کے نظام کی کیا صورتحال ہے؟ میں فی الحال اس سلسلے میں مزید کچھ کہنے کے بجائے تجویز دیتا ہوں کہ پاکستان بھر کے ماہر ترین اینکر پرسن اور تجزیہ کاروں پر مشتمل تین چار کمیٹیاں بنائی جائیں اور ان سے ٹھٹھہ سے جیکب آباد تک کا سروے کرنے کیلئے گزارش کی جائے اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اسکے بعد وہ جو فیصلہ دیں گے ہمیں منظور ہوگا‘ باقی سندھ کیوں خود کراچی کا ہی سروے کرالیا جائے؟
کیا کراچی کے دیگر ترقی یافتہ علاقوں کی طرح سولجر بازار‘ لیاری‘ گارڈن اور کیماڑی کے علاقے بھی اتنے ہی ترقی یافتہ ہیں؟ یاد رہے کہ مجھے ایک بار کچھی بھائیوں نے کیماڑی میں ایک چھوٹی سی تقریب میں مدعو کیا‘ میں جب وہاں پہنچا تو حیرت زدہ رہ گیا کیونکہ جس گلی سے ہم گزرے وہاں بجلی کا کوئی وجود نہ تھا‘ سارا محلہ اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے‘ گلیوں میں آج تک فرش بندی نہیں ہوئی‘ ان گلیوں میں چلنا معجزے سے کم نہیں‘ یہ علاقہ بندر روڈ سے کتنا دور ہے؟ مگر کراچی کے یہ علاقے ہی کیا؟ کیا ملیر اور اس کے اردگرد کے علاقے کراچی کا حصہ نہیں ہیں؟ ہمارے ’’مہربان‘‘ کم سے کم ان علاقوں کے اندر ہی جھانکیں‘ جہاں تک باقی سندھ کا تعلق ہے تو جناب اگر ہمارے مہربان سارے سندھ کا سروے کریں تو شاید وہ خود اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان علاقوں کی زندگی سے قرون وسطی کے دور کی جھلک نظر آتی ہے‘ کراچی تو ہمارے انتہائی ذہین اور سمجھدار دانشوروں کا شہر ہے‘ ان سے تو یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس طرف بھی توجہ دیں اور سندھ کے اندر یہ ترقی کا جو بے پناہ عدم توازن ہے اسے ختم کرانے کے لئے جدوجہد کریں‘ فقط کراچی اور دیگر سندھ ہی کیوں‘ کیا لاہور شہر اور باقی پنجاب میں صورتحال ایک جیسی ہے‘ کیا یہ بات درست نہیں کہ جتنا خرچ لاہور پر ہورہا ہے اس کا آدھا بھی باقی پنجاب پر نہیں ہورہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت بھی غریب اور لٹے ہوئے کسانوں کی ایک بڑی تعداد لاہور کی شاہراہوں پر تڑپ رہی ہے‘ کیا یہ درست نہیں کہ ایک طرف شرفا اور امراء کا پاکستان ہے اور دوسری طرف غرباء اور لٹے ہوئے لوگوں کا پاکستان ہے‘ یہ تضاد کب تک؟ حقیقت تو یہ ہے کہ سارے ملک کے غرباء اور لٹے ہوئے لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونا پڑے گا‘ کسی سیاسی جماعت کو ان غریبوں اور لٹے ہوئے لوگوں کا احساس نہیں‘ ہمارے سیاسی رہنما خود ’’شرفا اور امراء‘‘ کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں‘ لہذا ان کا ان غرباء سے کوئی تعلق ہی نہیں‘ آئیے پاکستان کے سارے غرباء کو جگائیں‘ متحرک کریں۔ا س میں کوئی شک نہیں کہ بات ’’کوٹہ سسٹم‘‘ سے شروع ہوئی تھی مگر سارے ملک میں چند ترقی یافتہ شہروں اور باقی پسماندہ علاقوں کے درمیان حل نہ ہونے والے تضاد کا ذکر چھیڑ بیٹھا کیا کریں‘ اس ملک کے دکھ اتنے ہیں کہ ایک دکھ کا ذکر شروع کرتے ہیں تو پتہ نہیں کہاں پہنچ جاتے ہیں‘ مجھے آج کے اس کالم میں ملک میں اب تک ہونے والی مردم شماری کے اعداد و شمار کے ذریعے مختلف صوبوں کے درمیان آبادی کے فرق کو بھی ظاہر کرنا تھا تو حکومت کی طرف سے وقت بہ وقت جمع کئے جانے والے اعداد و شمار کی روشنی میں وفاق اور صوبے میں مختلف صوبوں اور علاقوں کے لوگوں کے بڑے افسروں اور چھوٹے ملازمین میں تناسب کا بھی ذکر کرنا تھا‘ اب تو موجودہ حکمران مردم شماری کو اہمیت ہی نہیں دیتے۔


.
تازہ ترین