• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سعودی عرب میں متعین برطانوی سفیر کے قبولِ اسلام نے مغرب میں تہلکہ مچادیا ہے۔ قارئین! پس منظر و پیش منظر کے طور پر یاد رہے کہ ’’سائمن پائول کولس‘‘ سن2015 ء سے سعودیہ میں سفیر کے عہدے پر تعینات ہیں۔ سائمن پائول کولس 23 فروری 1956ء میں پیدا ہوئے۔ 1967ء سے 1973ء تک برطانیہ کے شیفلڈ کے اسکول ’’King Edward VII School‘‘ سے تعلیم حاصل کی۔ بحرین، تیونس، بھارت، اردن، دبئی اور بصرہ میں اسی عہدے پر فائز رہ چکے ہیں، جبکہ 2004ء اور 2005ء میں قونصل جنرل بھی رہے ہیں۔ 2005ء سے 2007ء قطر میں برطانوی سفیر رہے ہیں۔ 2007ء سے 2012ء تک اُردن میں بھی برطانوی سفیر رہ چکے ہیں۔ فروری 2012ء میں اُردن سے نکلے۔ 2012ء سے ستمبر 2014ء تک عراق میں برطانوی سفیر کے عہدے پر فائز رہے۔ 3؍ فروری 2015ء سے سعودی عرب میں برطانوی سفیر کے عہدے پر کام کررہے ہیں۔ 2016ء میں سائمن پائول کولس پہلے برطانوی سفیر ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرلینے کے بعد حج کیا ہے۔ حج میں سائمن کی اہلیہ بھی ہمراہ تھیں۔ ان کی ٹوئٹر پر تصویر پر سعودی مصنف اور خاتون سماجی کارکن فوزیہ البکر نے اپنے پیغام میں لکھا کہ سائمن نے اپنی اہلیہ کے ساتھ حج کیا اور وہ حج ادا کرنے والے پہلے برطانوی سفیر ہیں۔ برطانوی سفیر کو حج کی ادائیگی پر مبارکباد دینے والے ٹوئٹر صارفین میں سعودی شہزادی بسمہ بنت سعود بھی شامل ہیں۔ لوگوں کی جانب سے نیک خواہشات اور مبارکباد کے جواب میں برطانوی سفیر نے لکھا: ’’ مختصراً یہ کہ میں نے 30 سال مسلمان معاشرے میں رہنے اوردینِ اسلام کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اسلام قبول کیا۔ یہ میرے لئے سب سے بڑا اعزاز اور انتہائی خوشی کا مقام ہے۔‘‘ برطانیہ کے یہ پہلے اہم شخص نہیں ہیں جنہوں نے اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا ہو۔ چند سال پہلے بر طانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی خواہر نسبتی ’’لارن بوتھ‘‘ نے بھی اسلام قبول کیا تھا۔ لارن بوتھ نے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعدمیڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا: ’’اب میں شراب نہیں پیتی۔ نماز پڑھنے سے سکون ملتا ہے۔ حجاب پہن کر اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی ہوں۔ قرآن کی تلاوت سے اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ میں اسلامی تعلیمات سے شدید متاثر ہوں۔ میں نے مسلمانوں کو مغربی پروپیگنڈے سے مختلف پایا ہے۔‘‘ جس دن ٹونی بلیئر کی سالی نے اسلام قبول کیا تھا اسی دن چینی کمپنی کے ایک اعلیٰ افسر نے بھی علی الاعلان اسلام قبول کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا۔ ان کے اسلام قبول کرنے کے واقعہ کو مغربی دنیا کے اخبارات نے شہ سرخیوں سے شائع کیا تھا۔ ان کے قبولِ اسلام کی وجہ قرآن پاک کا مطالعہ، غریبوں کی مدد، مظلوموں کی حمایت بنی۔ حضرت عمر فاروقؓ کے قبولِ اسلام کے واقعہ سے لے کر ٹونی بلیئر کی سالی تک اکثریت کے اسلام قبول کرنے کا بنیادی سبب قرآن کا مطالعہ اور مظلوموں کی حمایت ہی بنا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں 1476233470 مسلمان آباد ہیں۔ جن میں سے ایک ارب ایشیا میں، 400 ملین افریقہ، 44 ملین یورپ میں اور 6 ملین امریکہ میں رہتے ہیں۔ دنیا میں ہر پانچواں انسان مسلمان ہے۔ ہر دن مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، جبکہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں واضح کمی آرہی ہے۔ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد کے ساتھ مسلمانوں کا تناسب کچھ اس طرح سے بنتا ہے ہر ہندو کے مقابلے میں 2 مسلمان اور ہر یہودی کے مقابلے میں ایک سو مسلمان ہیں۔ مسلمانوں کی تعداد میںپہلے بتدریج اضافہ ہو رہا تھا، لیکن نائن الیون کے بعدتیزی سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ روزانہ اوسطاً دنیا بھر میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد 1500افراد سے زیادہ ہے۔ ہالینڈ کی آبادی ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کے قریب ہے جس میں 12 لاکھ سے زائد مسلمان ہیں۔ تناسب کے اعتبار سے یورپ کے جس ملک میں زیادہ مسلمان ہیں وہ ہالینڈ ہی ہے۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق گزشتہ 10سالوں میں صرف امریکہ ویورپ میں چار لاکھ افراد حلقہ بگوش اسلام ہوچکے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ میں بتیس ہزار خواتین مشرف بہ اسلام ہوچکی ہیں۔ اسپین میں بھی ایک لاکھ سے اوپر اسلام میں داخل ہوچکے ہیں۔ فرانس میں بھی اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ویسے امریکہ اور فرانس میں اسلام دوسرا بڑا مذہب شمار ہوتا ہے۔ آسٹریا میں تیسرا بڑا مذہب ہے۔ آسٹریا میں نائن الیون کے بعد 56 ہزار عیسائیوں نے اسلام قبول کیاہے۔ مقامِ مسرت ہے ان اسلام قبول کرنے والوں میں درجنوں معروف ومشہور افراد بھی ہیں۔ تقابلِ ادیان پر مطالعہ کرنے والی غیر جانبدار برطانوی مصنفہ اور اسکالر آرم اسٹرانگ نے اسی سچائی کو بیان کیا ہے کہ میں نے 30 سال تمام مذاہب کا مطالعہ کیا۔ میں سمجھتی ہوں اسلام تمام مذاہب کے لئے رہنما کردار ادا کرسکتا ہے۔‘‘ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے محکمہ تعلقات عامہ کی جاری کردہ رپورٹ بعنوان ’’امریکہ میں اسلام‘‘ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ امریکی تھنک ٹینکس نے اپنی مشترکہ رپورٹس میں کہا ہے اگر اس طرح لوگ مسلمان ہوتے رہے تو 2021ء تک اسلام امریکہ کا پہلا بڑا مذہب ہوجائے گاجو امریکہ کے لئے خطرے کی علامت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’ایک وقت ایسا آئے گا جب ہر کچے اور پکے گھر میں اسلام داخل ہوچکا ہوگا۔‘‘ دنیا بھر کے اہم ترین افراد کا جوق درجوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے یہ بات واضح ہوتی جارہی ہے کہ شاید وہ وقت قریب ہے۔ یہ تحریر لکھتے وقت میرے سامنے ٹیبل پرمختلف زبانوں کے 27 کے قریب اخبار اور رسائل وجرائد رکھے ہیں۔ ان میں آٹھ خبریں اور رپورٹیں نومسلموں کے حوالے سے ہیں۔ انہیں میں سے ایک آسٹریا کے شہر لینز میں پیدا ہونے والی خاتون پروفیسر امینہ اسلام کی ہے۔یہ کہتی ہیں: ’’جب میں 16 سال کی تھی تو اپنے عیسائی والدین کے ساتھ سلزبرگ منتقل ہوگئی۔ مجھے عیسائیوں کی مذہبی مجالس میں شرکت کرنا نہ جانے کیوں عجیب لگتا تھا۔ مجھے عیسائی پادریوں کی انجمنوں اور چرچوں سے بھی وابستہ کیا گیا لیکن کچھ برس بعد جب میں بائبل کا خوب مطالعہ کرچکی تو میرے ذہن میں عیسائیت کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا ہونے لگے جو میرے فہم وادراک سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔‘‘ روس سے تعلق رکھنے والی ’’مائیکل ڈیوڈ شاپیرو‘‘ نسلاً یہودی تھیں۔ 19 سال کی عمر تک انہیں مذہب سے کوئی لگائو نہیں تھا اور خدا کے وجود کے بارے میں بھی وہ تذبذب کا شکار تھیں لیکن قرآن کے مطالعہ سے وہ مسلمان ہوگئیں۔‘‘ چند سال پہلے ہندوستان کے متعصب ہندو گھرانے میں ایک معمر خاتون نے اسلام قبول کرلیا۔ یہ خاتون پورے خاندان میں بڑا مرتبہ رکھتی تھی۔ سب اس کی عزت کرتے تھے۔ اس کے قبولِ اسلام سے سارا خاندان لرزکر رہ گیا۔گزشتہ دنوں ایک بڑے پنڈت کی بیٹی کے قبول اسلام کی ایمان افروز داستان پڑھنے کو ملی۔ اندریں حالات جب دنیا بھر سے مرد و خواتین مسلمان ہور ہے ہیں ،ہم مسلمانوں کے کرنے کے کام یہ ہیں کہ وہ اسلام کی اصل تصویر اور چہرہ دنیا کے سامنے لائیں۔ قرآن پاک کے تمام زبانوں میں ترجمے کرواکر عام کریں۔ تشدد اور فرقہ واریت سے اجتناب کریں ۔ نو مسلموں کی بھرپور حوصلہ افزائی کریں۔ اپنے رویوں میں نرمی لائیں۔


.
تازہ ترین