• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مذاکرات کا سب سے بڑا اندیشہ اور مسئلہ کشمیرمذاکرات سے کمزور، ظالم، غاصب اور ناجائز قابض فریق کو سب سے بڑا اندیشہ یہی ہوتا ہے کہ اس کے دلائل اور ثبوت اسے سچا ثابت کرنے میںناکام ہوں گے۔ اس اندیشے کے تحت ہندوستان کے حکمران کشمیر کے مسئلہ پر مذاکرات کے خلاف ہیں جو فیصلہ کن بھی ثابت ہوسکتے ہیں یا فیصلے کی جانب بڑھ سکتے ہیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا تھا کہ جو انجام سے ڈر رہا ہوتا ہے وہ انجام کی جانب ہی بڑھ رہا ہوتا ہے۔غاصبوں کے مددگار جو انہیں انجام اور فیصلوں سے محفوظ رکھنا یا بچانا چاہتے ہیں انہیں محفوظ رکھنے میں کامیاب تو نہیں ہوسکتے مگر ان کی فیصلے کی گھڑیوں کو آگے لے جانے میں کامیاب ضرور ہوسکتے ہیں اور مسئلہ کشمیر کے آخری فیصلے کو نصف صدی سے بھی زیادہ آگے لانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔اس وقت تحریک ِ آزادی کشمیر تیسری نسل تک پہنچ چکی ہے۔ سوشلزم کے ایک معروف دانشور ٹیڈگرانٹ کا کہنا ہے کہ جو عوامی تحریک نسلوں کے اندر سلگ رہی ہوتی ہے وہ اگر تیسری نسل تک پہنچ جائے تو وہ اپنے کامیاب ہونے سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہیں ہوتی۔جاپان میں جنم لینے والے اور امریکی سوچ میں پروان چڑھنے والے ایک دانشور نے دیوار ِ برلن کے گرنےاور سوشلزم کے انہدام کے بعد پوری دنیا میں گونجنے والا یہ نعرہ لگایا کہ تاریخ (ہسٹری) کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ سرمایہ داری نظام کے خلاف اب دنیا میں کوئی تحریک اُبھرنے کی کوشش نہیں کرے گی۔ برطانیہ کی وزیراعظم مسز مارگریٹ تھیچر نے اس دانشور کے بارے میں بتایا کہ وہ بھی احمقوں کی جنت میں رہنے والوں میں شامل ہے۔ بعد میں خود اس دانشور نے بھی اپنے اُگلے ہوئے نعرے کو نگلتے ہوئے کہا کہ ان کے نعرے کا وہ مطلب نہیں تھا جو عام لوگوں نے سمجھ لیا۔ تاریخ اگرسوشلزم کے نفاذ سے پہلے بھی اپنا وجود رکھتی تھی تو سوشلزم کے انہدام کے بعد بھی موجود رہےگی۔ سرمایہ داری نظام کو خود اپنے سرمایہ کاروں کی جانب سے بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ ہندوستان کے کشمیرکاز کو جس قدر نقصان اس کےاٹوٹ انگ کے نعرے نے پہنچایا ہے اتنا نقصان شاید تحریک ِ آزادی کشمیر نے بھی نہیں پہنچایا ہوگا۔ تحریک کے تیسری نسل تک پہنچنے میں تحریک چلانے والوں کے فکر و عمل کی کچھ کمزوریوں کا دخل بھی ہوگا مگر تحریک کا تیسری نسل تک پہنچنا اس تحریک کی دیانتداری، خلوص اور حریت پسندی کی بے مثال قربانیوں کامحتاج بھی ہے اور قربانیاں کبھی ضائع نہیں ہوتیں ہمیشہ مثبت نتائج کا رنگ لاتی ہیں۔ہندوستان، بنگلہ دیش، افغانستان اور بھوٹان کی ملی بھگت کے ردعمل میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تعاون کو تقویت مل سکتی ہے اوراس میں ایران کے علاوہ وسط ایشیائی ریاستیں بھی شامل کی جاسکتی ہیں جو یقینی طور پر ایک قابل قدر اور لائق توجہ یونین بن سکتی ہے جس کا سب پڑوسی ملکوں کو اقتصادی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ جہاں تک ہندوستانی حکمرانوں کی پانی کی بندش کی دہشت گردی ہے، پاکستان نے اس کو جنگ کی دھمکی کے مترادف قرار دیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ پاکستان اس جنگ کی دھمکی کا موثر جواب دینے کی اہلیت اور طاقت بھی رکھتا ہے۔ چنانچہ اس دھمکی اور اس کے جواب سے پیدا ہونے والے تمام حالات کی ذمہ داری ہندوستان کے حکمرانوں کی ہٹ دھرمی پر عائد ہوتی ہے اور یہ حالات ہندوستان کے حق میں نہیں جائیں گے بلکہ ہندوستان کے اندر علیحدگی کی تحریکوں کو نئی زندگی دینے کا سبب بنیں گے۔ ہندوستان ایک کشمیر کو بچانے کی کوشش میں اپنے سات آٹھ اٹوٹ انگ کھو بیٹھےگا۔


.
تازہ ترین