• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر سید تقی عابدی دنیا کے پانچ ملکوں میں رہتے ہیں، راولپنڈی کینٹ میں وزارت دفاع کی وہ بلڈنگ جسے سیکریٹریٹ II(ٹو) کہا جاتا ہے یا کلکتہ آفس، اس عمارت کے تھوڑا فاصلے پر بالکل راولپنڈی اسٹیٹ بینک کے سامنے شمال میں ایک پٹرول پمپ ہے جسے پانچ سڑکیں لگتی ہیں شہر میں اس پمپ کو ’’پنج سڑکی پمپ‘‘ کہا جاتا ہے، سوچتا ہوں ڈاکٹر تقی عابدی کے پانچ ملکی قیام کو کس نام سے پکارا جائے۔ ’’پنج وطنی‘‘ ’’پنج دیسی‘‘ یا پھر سید ہونے کے ناطے انہیں ’’پنج تنی‘‘ ہی رہنے دیا جائے۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی جیسے لوگ ملکوں اور قوموں کے خاموش سفیر ہوتے ہیں، آپ بھارت کے شہر امروہہ کے سادات میں سے ہیں امام زین العابدین کی اولاد ہونے کے ناطے عابدی کہلاتے ہیں پورا نام سید تقی حسن عابدی تخلص تقی اور ادبی نام تقی عابدی ہے۔ شاعر ہیں، معالج، ادیب، محقق، نقاد اور مورخ بھی طبع شدہ کتابوں کی تعداد پچاس ہے انہیں ماہر اقبالیات بھی کہا جاتا ہے غالیبات، دبیریات، انیسیات اور ماہر فیضیات بھی۔
ڈاکٹر سید تقی عابدی یکم مارچ 1952ء کو بھارت کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے آپ کے والد سید سبط نبی عابدی نظام دکن حیدرآباد کی عدالت عظمی کے جج تھے تقسیم برعظیم کے بعد وہ بھارت کے سیشن جج رہے۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے ایم بی بی ایس حیدرآباد دکن سے، ایم ایس برطانیہ سے، ایف سی اے پی امریکہ سے اور ایف آر سی پی کی سند کینیڈا سے حاصل کی، ایران کے شہر ابدان کے ایک مذہبی گھرانے کی گیتی نامی خاتون سے شادی کی، دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، بھارت کی کئی یونیورسٹیز میں جزوقتی پڑھاتے رہے اور ایک عمر برطانیہ میں خود پڑھتے بھی رہے کینیڈا میں ماہر امراض دل بھی ہیں اور پیتھالوجسٹ بھی۔
ڈاکٹر تقی عابدی کو یورپ، امریکہ، بھارت اور پاکستان کے کئی علمی ادبی سرکاری اور نیم سرکاری اداروں نے ایوارڈ سے سرفراز کیا ہے ان کے حصے میں آنے والے اعزازات کی فہرست بہت طویل ہے دنیا بھر کے اردو کی سرپرستی کرنے والے اداروں اور تنظیموں نے ڈاکٹر تقی عابدی کو بے پناہ خراج تحسین پیش کیا ہے اسلام آباد کی علامہ اقبال یونیورسٹی میں ڈاکٹر عابدی کی اقبال شناسی کے عنوان سے ایم اے کا مقالہ لکھا گیا، کراچی یونیورسٹی میں بھی ان پر ایک ایم اے ہوا، بھارت کی دہلی یونیورسٹی نے ڈاکٹر سید تقی عابدی پر پی ایچ ڈی کی ڈگری جاری کی، بھارت نے نشان امتیاز دیا، انیس و دبیر ایوارڈ دیئے، سال کا بہترین ایوارڈ بھی آپ کو ملا اور تاحیات کامرانیوں کے ایوارڈ کا بھی آپ ہی حق دار قرار پائے، پاکستان کے اربن بورڈ نے ایکسی لینس اور انٹرنیشنل لٹریسی کونسل نے ایوارڈ برائے تحقیق و ادب سے بہرہ ور کیا، کینیڈا اور برطانیہ کے علاوہ ایران سے ملنے والے ایوارڈ کی بھی روداد بہت طولانی ہے۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے برعظیم کے اُردو فارسی انشا پردازوں، شاعروں، مرثیہ نگاروں اور کلاسک ادب کے معماروں اور اساتذہ پر کتابیں لکھی ہیں۔
مرزا سلامت علی عرف مرزا دبیر پر ہی صرف سات کتابیں لکھی گئی ہیں، مرزا ببر علی حزیں جن کا تخلص شیخ ناسخ نے بدل کر انیس کردیا تھا اور وہ میر انیس کے نام سے معروف ہوئے ان پر لکھی جانے والی کتابوں کی روداد بھی طولانی ہے، جوش ملیح آبادی، اقبال، غالب، انشاء فراق گور گھپوری، فانی اور کئی دوسرے مشاہیر ادب پر ڈاکٹر تقی عابدی کی لکھی کتابوں کے حوالے کے بغیر اردو ادب کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی۔ پاکستان میں ڈاکٹر تقی عابدی کے ایک نوجوان ادب شناس جناب زاہد کاظمی ہری پور میں جن کی لائبریری خطے میں احترام کا حوالہ بن چکی ہے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی ملک میں جاتے ہیں خاص طور سے ایران اور بھارت میں تو جہاں وہ اپنے لئے نایاب کتب حاصل کرتے ہیں وہیں میرے لئے بھی الگ سے باندھ لیتے ہیں، انہوں نے ڈاکٹر تقی عابدی کی ساری کی ساری کتابیں مجھے دیں جو پوری دیانت اور محنت سے لکھی بھی گئیں اور پبلشر نے خوبصورتی سے شائع بھی کیں مگر فیض احمد فیض پر ڈاکٹر عابدی کا کام کوئی دوسرا شاید ہی اس نوعیت اور خوبصورتی سے کرسکے گا۔ فیض شناسی اور فیض فہمی دو خوبصورت کتابیں ہیں، بڑے سائز میں آرٹ پیپر اور چار رنگوں میں طبع فیض شناسی 568 صفحات اور فیض فہمی ڈھائی ہزار صفحات کو محیط ہے گزشتہ روز ڈاکٹر تقی عابدی سے ٹیلیفون پر بات ہورہی تھی تو وہ بتارہے تھے کہ انہوں نے کبھی فیض احمد فیض کو نہیں دیکھا کہیں ملاقات نہ ہوئی بس فیض کی شاعری نے ان کا گرویدہ بنارکھا ہے، فیض احمد فیض کی تاریخ ولادت سرکاری کاغذات کے مطابق کہیں 7جنوری 1911ء ہے اور کہیں 7جنوری 1912ء مگر ڈاکٹر عابدی نے اپنے پاکستانی دوستوں کے توسل سے سیالکوٹ بلدیہ سے ریکارڈ نکلوایا تو وہاں 13فروری 1911ء لکھا ہے، فروری کی مناسبت سے یہ فیض کی ولادت کا مہینہ بھی ہے ’’فیض فہمی‘‘ میں فیض احمد فیض پر لکھی جانے والی 56 کتابوں کی تفصیل بھی ہے اور دنیا بھر کے 330 قلمکاروں کے مضامین بھی، فیض کے وہ انٹرویوجو معروف قلمکاروں اور صحافیوں نے کئے جن کے ساڑھے چار سو سوالات تھے بھی یکجا کردیئے گئے ہیں اور یہ بہت ہی بڑی فیض فہمی ہے۔ ’’فیض فہمی‘‘ میں فیض احمد فیض اور ان کی بیگم ایلس کے درمیان نکاح کے وقت ہونے والے معاہدے کا احوال بھی ہے فیض صاحب کی بارات میں ان کے سمیت تین لوگ شامل تھے، شیخ عبداللہ نے نکاح پڑھایا تھا۔ 28اکتوبر 1941ء کو سری نگر میں منعقد ہونے والی اس تقریب کی کہانی بیگم ایلس فیض نے امرتا پریتم کو دیئے گئے اپنے پہلے انٹرویو میں بہت دلچسپ انداز میں بیان کی ہے۔ نکاح کے فوری بعد مشاعرہ ہوا تھا۔
ڈاکٹر تقی عابدی نے دنیا بھر کے رسائل، اخبارات اور کتب سے استفادہ کرکے فیض فہمی کی تکمیل کی مگر راولپنڈی میں شائع ہونے والی 2012ء کی کتاب جسے ڈاکٹر نثار ترابی نے ترتیب دیا تھا جس میں ملک کے 37 نامی گرامی اہل قلم کے مضامین شامل ہیں اور ’’فکر فیض‘‘ کے عنوان سے منصہ شہود پر آئی تھی اس کا حوالہ نہیں دیا جاسکا شاید یہی وجہ ہے کہ تحقیق کا عمل جاری رہتا ہے اس کو جمود نہیں، مجھے ڈاکٹر تقی عابدی کی قلمکاری، انشاء پردازی، شاعری، حمد و نعت نے تو گرویدہ کئے ہوئے تھا کہ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ فیض کے کلام کے حافظ بھی ہیں اللہ پاک ان کا حامی ناصر ہو ڈاکٹر تقی عابدی نے دنیا میں اردو زبان کی ترویج کا جو بیڑہ اٹھایا ہوا ہے اور ملکوں ملکوں اپنے پرستاروں اور قارئین میں اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں یوں وہ فیض فہمی کے ساتھ ساتھ اردو شناسی اور انسان فہمی کا خوبصورت انداز اپنائے ہوئے ہیں فیض احمد فیض کا مسلک بھی انسان دوستی ہی تھا جسے ڈاکٹر تقی عابدی نے فیض فہمی کا نام دیا ہے۔
تازہ ترین